Site icon Islamicus

ایک قیامت ڈھا گیا دنیا سے اٹھ جانا تیرا…(سانحہ ارتحال حضرت مولانا مفتي محمد عظيم الدين نقشبندي م قدس الله سره العزيز )


گزشتہ کل ٢٧/شعبان المعظم  ١٤٤٢/ہجری مطابق ٩/اپریل ٢٠٢٠ء کو تقریباً ساڑھے نو بجے  سوشل میڈیا کے ذریعے اہل سنت وجماعت کے عظیم رہبر و رہنما،ازھر الہند جامعہ نظامیہ کے عظیم علمی سپوت، صاحب شوکت و سطوت، استاذ العلماء، فقیہ العصر، مفتی اعظم حیدر آباد دکن، یادگار اسلاف، بقیۃ السلف، عمدۃ الخلف، اعظم الفقہاء حضرت علامہ مولانا مفتی عظیم الدین صاحب نقشبندی قادری علیہ الرحمۃ والرضوان کی رحلت کی خبر موصول ہوئی- انا للہ و انا الیہ راجعون – 

اس جانکاہ خبر نے جماعت اہلسنت کو بالخصوص فرزندان جامعہ نظامیہ کے ہر ہر فرد کو محزون و مغموم کر دیا – جب میں نے یہ صدمہ جانکاہ سنا میری طبیعت میں اضطراب شروع ہوگیا، کسی طرح دل و دماغ پر قابو پاتے ہوئے چند سطریں سپرد قرطاس کرنے ہمت و جرأت کرکے بیٹھ گیا – 

حضرت  کا سانحہ ارتحال ملت اسلامیہ بالخصوص اہل سنت و جماعت کے لیے عظیم خسارہ ہے- مفتی صاحب قبلہ نے ایک طویل عرصہ تک اپنی علمی تبحر اور فقہی تدبر کے ذریعے ملت کے درپیش مسائل لاینحل کا حل پیش کیا – امت کی صحیح رہنمائی فرماتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن کیا- آپ قوم و ملت کے وہ عظیم علمی سرمایہ تھے جس کی مثیل و نظیر پیش کرنے سے زمانہ قاصر ہے- اخلاق حمیدہ و عادات جمیلہ کے آپ دھنی تھے- خوش طبع و ملنسار تھے- خدمت خلق کے جذبے سے آپ سرشار تھے – معاملہ فہمی کے فہم و ادراک کی دولت لازوال سے مالا مال تھے- جماعتی و مشربی انتشار و خلفشار سے دور و نفور تھے، اتحاد و اتفاق کے داعی و مبلغ تھے – خاکساری و فروتنی آپ کا جوہر خاصہ تھا – درس و تدریس کے کہنہ مشق مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ علوم اسلامیہ متداولہ کے تمام کتب پر یکساں ملکہ حاصل تھا – خصوصاً فقہ و فتاویٰ میں آپ ید طولیٰ رکھتے تھے جس کے بہت واضح ثبوت آپ کے وہ پچاس ہزار فتاویٰ جات ہیں جس کو آپ نے چھ دہائیوں سے بحیثیت صدر نشین مفتی جامعہ نظامیہ سے صادر فرمایا –

حضور اعظم الفقہاء ایک عظیم مدرس و فقیہ تھے – آپ نے سن ١٩٦٣ء سے بحیثیت صدر نشین مفتی جامعہ نظامیہ تقریبا پچاس ہزار سے زائد فقہی مسائل کا حل پیش کیا- اسلامی دنیا ان کے اس عظیم بےکراں احسان کو فراموش نہیں کرسکتی-

حضور اشرف الفقہاء کی ذات ستودہ صفات کے متعلق مجھ جیسے بے بضاعت کا خامہ فرسائی کرنا میری سعادت مندی و فیروز بختی ہے- میرا یہ ناتواں قلم آپ کی عظیم بارگاہ میں کچھ مختصر مگر جامع گلدستہ محبت و عقیدت پیش کرنے کی سعادت کررہا ہے –

نسبت سے تری میرا قلم پائے گا عزت
محتاج نہیں تو میرے انداز بیاں کا

ولادت باسعادت :

حضرت فقیہ اسلام مفتی عظیم الدین نقشبندی صاحب  بتاریخ ٢٦/شعبان المعظم ١٣۵٨ ہجری مطابق ١٠/اکتوبر ١٩٣٩ء کو بروز سہ شنبہ  مردم خیز شہر حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے- آپ کے والد بزرگوار حضرت مولانا نظام الدین صاحب اپنے وقت کے اکابر علماء و صوفیاء میں شمار کیے جاتے تھے- آپ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے؛ حضرت علامہ أعظم الفقہاء مفتی عظیم الدین مجددی بن حضرت علامہ نظام الدین قادری بن حضرت علامہ شیخ حسین  صاحب رحمہم اللہ اجمعین 

ابتدائی تعلیم و تربیت :-

ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی آپ بچپن ہی کے بچپن ہی سے نہایت ہونہار اور ذہین وفطین تھے گویا ~

بالائے سرش ز ہوشمندی
می تافت ستارہ بلندی

  ازھر الھند جامعہ نظامیہ میں داخلہ کے بعد آپ نے جن اساتذہ و شیوخ سے بھر پور استفادہ کیا ان میں شمس المفسرین حضرت مفتی رحیم الدین  صاحب شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ کی خصوصی توجہات و نظر کرم نے آپ کی ذات مبارکہ کو علم کا کوہ ہمالہ بنادیا- ان کے علاوہ صوفی باصفا رئیس المتکلمین مفتی عبدالحمید صدیقی، جامع منقول و معقول حضرت علامہ مفتی مخدوم بیگ الہاشمی، محدث کبیر جامع الاحادیث النبویہ حضرت ابو الوفاء الأفغانی اور شیخ الشیوخ حضرت علامہ مفتی شیخ سعید قادری علیہم الرحمۃ والرضوان جیسے اکابر علماء و شیوخ شامل ہیں –

سن ١٩۵٦ء میں آپ نے جامعہ نظامیہ سے سند فضیلت حاصل کیا – پھر آپ نے جامعہ ہی سے اساتذہ کی نگرانی میں سن ١٩۵٩ء میں سند کامل الفقہ درجہ اول سے  حاصل کیا اور اساتذہ و شیوخ کے دست کرم سے آپ کے سر پر کامیابی کا سہرا باندھا گیا –

آپ کی علمی و فقہی خدمات: فراغت کے بعد آپ عالمی شہرت یافتہ علمی و تحقیقاتی ادارہ “دائرۃ المعارف العثمانیہ” سے بحیثیت مصحح جڑ کر علمی و تحقیقی خدمات انجام دیتے رہے – آپ کی انتھک محنت و کاوش، مخطوط شناسی اور فنی مہارت کو دیکھ کر ارکان دائرۃ المعارف العثمانیہ نے آپ کو صدر المصححین نامزد کیا- آپ نے بلاناغہ یہ خدمت سن ٢٠٠٠ء تک انجام دی- سن ١٩٦٣ء میں حضرت قبلہ کو بحیثیت مفتی جامعہ نظامیہ مقرر کیا گیا – اس طویل عرصے میں آپ نے تقریباً پچاس ہزار فتاویٰ جات صادر فرمائے جو آپ کے فقہی تبحر اور فقہ حنفی کے تمام جزئیات پر کامل دسترس کی روشن دلیل ہے – آپ مجلس علماء دکن کے بھی صدر رہے ہیں – اس کے علاوہ آپ مرکزی رویت ہلال کمیٹی، حیدرآباد دکن کے رکن رکین بھی تھے – پانچ دہائیوں سے حیدرآباد و قرب و جوار کے علاقوں کے لیے بنفس نفیس آپ ہی نظام الأوقات رمضان اور أوقات الصلاة مرتب کرکے جاری کیا کرتے تھے – انہیں گراں قدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سن ١٩٩٩ء میں آپ کو عزت مآب ڈاکٹر شنکر دیال شرما کے ہاتھوں ریاستی ایوارڈ پیش کیا گیا –

آپ نے مجلس اشاعت العلوم کو اپنی دن رات کی محنتوں سے اوج ثریا تک پہنچا دیا – آپ مجلس کے فعال و متحرک صدر نشین تھے – ہزاروں کتابوں کی طبع و اشاعت آپ کی سرپرستی و نگرانی میں ہوتی تھی – جن میں مقاصد الإسلام مؤلفہ حضور شیخ الإسلام و حقیقۃ الفقہ قابلِ ذکر کتابیں ہیں – سن ٢٠١٤ء میں آپ کی پچاس سالہ دینی و ملی و تعلیمی و فقہی و اور لسانی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدر جمہوریہ ایوارڈ سے آپ کو نوازا گیا –

وفات حسرات آیات:آخر یہ اندوہناک گھڑی بھی آگئی جس میں لاکھوں معتقدین و شاگردین کا خون جگر اشکوں سے بھر آیا یہ چمکتا دمکتا روشن چراغ قدرت کے زور دار ہوا سے گل ہوگیا یعنی ٢٧/ شعبان المعظم ١٤٤٢ ہجری مطابق ٩/اپریل ٢٠٢١ء بروز جمعہ رات ٩/بجے کے قریب ٨٢/سال کی عمر میں آپ نے اس دارفانی کو خیرباد کہہ کر عالم بقا کا سفر کیا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے – انا للہ و انا الیہ راجعون –

نماز جنازہ جامعہ نظامیہ کے وسیع و عریض صحن میں ہزاروں معتقدین و شاگردین نے ادا کی – تدفین احاطہء درگاہ شجاعیہ، عیدی بازار میں عمل میں آئی – پسماندگان میں چار فرزندان اور تین دختران شامل ہیں – خدا آپ کے تمام فرزندوں کو آپ کے نقش قدم کے مطابق خدمت دین کی توفیق بخشے – آپ کی رحلت سے جہاں اسلام و سنیت کا بڑا خسارہ ہوا ہے جس کی تلافی فی الوقت ناممکن و محال ہے –  خداوند کریم سے دعا ہے کہ مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ و الرضوان کو غریق رحمت کرے – پسماندگان کو صبر و تحمل عطا فرمائے –

شاعر نے سچ کہا کہ…

اک قیامت ڈھا گیا دنیا سے اٹھ جانا ترا
یاد کرکے روئینگے یارانِ مے خانہ تجھے

مفتی اعظم مفتی عظیم الدین عليه الرحمه کے وصال پر ملال کی تاریخ کو جامعہ نظامیہ کے ہونہار فرزند حضرت علامہ نوید افروز نوید نے اس شعر سے نکالا ہے.

علم فقہ میں خاص ہیں بےحد فہیم ہیں 
مفتی عظیم واقعی مفتی عظیم ہیں 

سورج کے مثل آپ کی ہستی تھی ایے نوید 
واللہ وہ اب داخل خلد نعیم ہیں

(ازقلم: مفتی رفیق احمد کولاری ھدوی، کامل الحدیث جامعہ نظامیہ حیدرآباد) 



Source link

Exit mobile version