Site icon Islamicus

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے



بروز اتوار روزانہ معمولات کی طرح علی الصباح مدرسہ پہنچ کر محو مطالعہ ہوگیا۔ پھر ہر روز کی طرح گھنٹی در گھنٹی پڑھاتا رہا۔ تقریبا 12 بج کر 20 منٹ پر ایک طالب علم بھاگتا ہوا آیا اور یہ جان کاہ خبر سنائی کہ حضرت قبلہ سید الأمہ کا وصال ہوگیا۔ اس روح فرسا خبر سے میری روح کانپ اٹھی اور سن کر تھوڑی دیر کے لیے سکتے میں پڑ گیا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا، دیر تک اس کیفیت میں رہا، میری آنکھیں اشکبار ہوئیں، لب پر لرزہ طاری تھا۔ اپنے شاگردوں سے کہا سید الأمہ ہمیں داغ مفارقت دے کر اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے۔

کیا خبر تھی یہ اچانک حادثہ ہو جائے گا
   اس زمیں کی گود میں اک آسماں سو جائے گا

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس خاکدان گیتی میں ہر دن لاکھوں لوگ اس دار فانی سے دار بقا کی طرف رخت سفر باندھتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے انتقال پر ایک فرد یا ایک مخصوص طبقہ و خاندان آنسو بہانے والے ہوتے ہیں، مگر کچھ لوگ ایسے بھی جانے والے ہیں جو اپنے پیچھے روتی بلکتی ایک ایسی دنیا چھوڑ جاتے ہیں جو نہ صرف ان کے لیے لہو کو اشک بنا کر بہاتے ہیں، بلکہ ان سے بچھڑنے کا غم انہیں صدیوں تک ستاتا رہتا ہے۔ موت تو برحق ہے جیسے کہ حضور سرور کونین ﷺ نے کہا: “الموت حق”۔ موت ہر کسی کی دردناک و افسوس ناک ہوتی ضرور ہے۔ اگر وہی موت کسی علمی اور دینی شخصیت کی ہو تو بہت زیادہ تکلیف دہ، دلخراش، جگر پاش و دل سوز ہوتی ہے۔ کچھ یوں ہی میرے لیے بھی سيد الأمہ کا سانحہ ارتحال تھا۔ اس جانکاہ خبر کا صدمۂ جان تراش و رنج و الم میں ہی سمجھ سکتا ہوں، الفاظ کی ترکیب و ترتیب سے میں وہ صدمہ و غم ہرگز بیان نہیں کر سکتا۔ یہ مضمون خامہ فرسائی کرتے وقت بھی میری آنکھیں نمناک ہیں، قلم لرز رہا ہے، لب کانپ رہے ہیں کہ نظر جہاں بھی دوڑا رہا ہوں وہ تبسّم ریز مکھڑا ہی نگاہوں میں کھیل رہا ہے۔

اڑائے کچھ ورق لالہ نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں تیری

ہر ذی شعور قاری ضرور سمجھ گیا ہوگا کہ سيد الأمہ سے میرے روابط و مراسم کتنے مضبوط استوار ہیں۔ اس کی ایک وجہ میرا اپنا سر درد تھا، جس کے ذریعہ سید الأمہ سے میرے تعلقات جڑ پکڑ گئے۔ دوسرا میرا سید الأمہ کے ساتھ ہچ ڈی کوٹہ میسور کا سفر تھا۔ میرے ہمنوا میرے سر درد سے خوب واقف ہیں، علاج کرتے کرتے اطبا بھی جواب دے چکے تھے۔ اس وقت حضرت صوفی با صفا، زاہد وقت حضرت علامہ باپوٹی مسلیار پرا پور کے ایما پر فقیر ایک دن، تاریخ یاد نہیں اور سنہ بھی ذہن کی گرفت میں نہیں، بس اتنا یاد ہے کہ وہ ایک منگل کا دن تھا حضور سید الأمہ کے پرشکوہ دولت خانہ “دار النعیم” کے دلکش صحن کی کرسی پر جلوہ فرما وجیہ و شکیل، نفاست پسند، ملنسار و خوش اخلاق اور سنجیدگی و متانت کے دل ربا پیکر کے باوجود زیر لب تبسم ریزیاں، سفید جاموں میں ملبوس، عطر فشاں کیفیت کے ساتھ بیٹھے جس عظیم شخصیت کو دیکھا وہ حضور سید الأمہ، گل گلزار حسینیت، آل نبی، اولاد علی، وارث مولائے کائنات، شہزادۂ بتول، چمن زہرا کے پھول، پاسبان اہلسنت، جانشین حضور سید پوکویا تنگل، حضرت علامہ سید حیدر علی شہاب باعلوی الحسینی رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ عالمانہ سج دھج کے ساتھ زمرۂ سادات میں مثلِ شمع فروزاں نظر آتے تھے، جب بھی دیکھتا کسی نہ کسی درد مند سے محو کلام رہتے، عجیب مقناطیسی شخصیت تھی۔ آخر اس درد مند و غم سے نڈھال کو اپنے جوار شفقت میں بٹھا کر پوچھا: کیا ہوا؟ اتنا سننا تھا کہ آنکھیں اشک بار ہوگئیں، سر درد کا فسانہ سناتا رہا۔ حضور سید الأمہ نے اپنا دست کرم میرے سر پر رکھ کر دم فرماتے ہوئے کہا: ان شاء اللہ تمہیں کبھی اس درد کی شکایت نہیں ہوگی۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ! تا دم تحریر اس بندۂ بے مقدار کو اس کی شکایت پھر نہ رہی۔ آہ!! آج حضور سید الأمہ نہ رہے۔

جان کر من جملہ خاصانِ میخانہ تجھے 
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے

احباب کی فرمائش تھی کہ میں حضور سید الأمہ پر کچھ سپردِ قرطاس کروں، اسی پیہم فرمائش کی تعمیل ہے یہ مختصر و اجمالی مضمون۔ آپ سمجھتے ہوں گے کہ یہ اجمال ہے، جی ہاں! میرے لیے یہ اجمال در اجمال ہے، میرے نہاں خانوں کا درد و غم اگر میں یہاں پیش کروں تو مجلدات درکار ہوں گے۔ یہیں میں اپنے قلم کو لگام دے رہا ہوں۔ کہیں یہ قلم سیاہی کے بدلے لہو نہ بہا دے۔

اب قارئین کے پیش نظر حضور سید الأمہ کی درخشاں وتابناک زندگی کے چند پہلوؤں کو بیان کرکے کے آپ سے رخصت ہو جاؤں گا۔

ولادت باسعادت: آپ 15 جون 1947ء کو پانکاڈ کے مشہور باعلوی حسینی سادات خانوادہ میں جلوہ فرما ہو ئے۔ جو سرزمین ملیبار میں خاندان شہاب سے بھی مشہور و معروف ہے۔ ولادت کے وقت آپ کا پورا گھر بقعۂ نور بن گیا، خوشی کا سماں چھا گیا۔ اہل خانوادہ آپ کو پیار سے آٹاپو بلایا کرتے تھے آپ کے والد بزرگوار حضور مخدوم السادات حضرت علامہ پی یم یس اے احمد پوکویا تنگل ایک خدا ترس و برگزیدہ بزرگ تھے۔ سر زمین ملیبار کی سیاسی و مذہبی قیادت کی باگ ڈور آپ ہی کے دست مبارک میں تھی۔ جامعہ نوریہ جو کیرالا کا مرکزی علمی چمن ہے، آپ ہی کی مرہون منت ہے۔ آپ نے اس چمنستان علم کو اپنے خون و پسینہ سے سینچا۔ آپ کی والدہ محترمہ مخدومۂ اہل سنت، شہزادئ خاتون جنت، حضرت سیّدہ عائشہ بی بی رحمۃ اللہ علیہا کی زندگی خوف الہی و خشیت ایزدی میں گزرتی تھی۔ اسی کا نتیجہ کہیے کہ حضور مخدوم السادات حضرت پوکویا تنگل کے چمن کے سارے پھول ملیبار کو اپنی عطربیزیوں سے معطر کر رہے ہیں۔ اللہ اس باعلوی چمن کو سدا آباد و شاداب رکھے۔

نسب نامہ: والد گرامی کی طرف سے آپ کا سلسلۂ نسب گلگوں قبا، شہید کربلا سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچتا ہے۔ سلسلۂ نسب آپ کا کچھ یوں ہے:

سيد حيدر علي شهاب بن سيد احمد پوكويا بن سيد محمد كنجی كويا بن سيد حسين آٹا كويا بن سيد محضار بن سيد حسين بن سيد علي شهاب الدين بن سيد احمد بن سيد علي بن سيد محمد بن سيد علي شهاب الدين بن سيد عمر محبوب بن سيد شهاب الدين بن سيد عمر بن سيد شهاب الدين احمد بن سيد أحمد بن سيد عبد الرحمن بن سيد شيخ علي بن سيد ابو بكر السقران بن سيد عبد الرحمن السقاف بن سيد محمد مولى الدويلة بن سيد علي بن سيد علوي بن سيد محمد الفقيه المقدم بن سيد الولي العلي بن العارف بالله صاحب المرباط بن سيد علي الخالي الاقسم بن العارف بالله سيد علوي بن سيد محمد بن العارف بالله علوي بن سيد أحمد المهاجر بن سيد عيسى النقيب بن سيد محمد بن سيد علي العريضي بن سيد جعفر الصادق بن سيد محمد الباقر بن سيد زين العابدين علي بن سیدنا امام حسين بن سيدتنا فاطمة الزهراء بنت سيدنا  الحبيب محمد مصطفیٰ صلى الله تعالیٰ عليه وآله و أصحابه وسلم.

تعلیم و تربیت: 1950ء میں پانکاڈ میں عمدہ تعلیم کا نظم و نسق نہیں تھا، اسی وجہ سے حضور مخدوم السادات پوکویا تنگل نے اپنے اس تیسرے شہزادے کو پانکاڈ دیودار ایل پی اسکول کی ابتدائی تعلیم کے بعد 1959ء میں یم یم ہائی اسکول کالیکٹ میں بھرتی کر دیا۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے بعد آپ نے تین سال کونلور Konnalloor پلی درس میں درس نظامی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ پھر آپ نے ایم اے عربی کالج پنانی کا رخ کیا، تقریبا پانچ سال وہیں زیر تعلیم رہے۔ پھر اعلی تعلیم کے لیے آپ نے 1972ء میں ام المدارس جامعہ نوریہ عربیہ فیضاباد پہنچ کر اپنی علمی تشنگی بجھائی۔ آپ کے اساتذہ میں حضور شمس العلماء ای کے ابو بکر مسلیار، پیر طریقت، رہبرِ راہ شریعت، فقیہ اعظم حضرت علامہ کوٹملا ابوبکر مسلیار، صوفی با صفا، جامع معقول و منقول حضرت علامہ کمرامتور اے پی محمد مسلیار، بقیۃ السلف، عمدۃ الخلف، محقق عصر، فقیہ دوراں حضرت علامہ کے کے عبداللہ مسلیار اور ماہر درسیات حضرت علامہ ومولانا کنجالن مسلیار رضی اللہ عن کلہم اجمعین قابل ذکر ہیں۔ 1975ء میں علماء و سادات کے حضور آپ کے سر پر دستار فضیلت باندھی گئی۔

اوصاف جمیلہ: آپ نیک صورت، نیک سیرت، خوش گفتار، اعلی کردار، لطافت، نظافت، نفاست، حلم و بردباری، متانت و سنجیدگی جیسے پاکیزہ اوصاف کے پیکر تھے۔ ایسے خلیق و ملنسار، پیکر اخلاص و وفا شعار کے تاجور تھے۔ رحم دلی، سخاوت و فیاضی، عفو و درگزر، خرد نوازی، چھوٹے بڑے کا لحاظ و پاس آپ کا نمایاں وصف و خاصہ تھا۔

اعزاز و مناصب: آپ ایک دور اندیش سیاسی قائد و رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ جماعت اہلسنت کی فعال و متحرک تنظیم سمستا کیرالا جمعیۃ العلماء کے عظیم رہبر تھے۔ آپ کے مناصب کا اگر میں ذکر کروں تو ایک لمبی فہرست ہو جائے گی، مگر بخوف طوالت چند اہم اعزازات و مناصب کا ذکر کرتا ہوں:

(1) صدر جامعہ نوریہ عربیہ فیضاباد
(2) چانسلر دار الہدی اسلامک یونیورسٹی
(3) صدر اعلی مجلس وافی کیمپس
(4) ریاستی صدر آل انڈیا مسلم لیگ
(5) قومی چیئرمین آل انڈیا مسلم لیگ
(6) SYS کے صدر محترم
(7) جامعہ دارالسلام نندی کیرالا کے صدر
(8) سمستا اسلامی تعلیمی بورڈ کے خزانچی
(9) سنی محل فیڈریشن کے صدر
(10) Mea engineering College کے صدر

اس کے علاوہ کیرالا کے متعدد مرکزی جامعات و دینی اداروں کے سرپرست و صدر اور تقریبا 1000 سے زائد علاقوں کے شرعی قاضی بھی تھے۔ کیرالا، آندھرا پردیش، آسام، بنگال، کرناٹک، مھاراشٹرا وغیرہ مختلف ریاستوں میں دار الہدی اسلامک یونیورسٹی کے زیر انتظام و انصرام تقریبا 35 سے زائد معیاری ادارے دین اسلام و مسلک اہل سنت کی خدمات میں سرگرم عمل ہیں، ان سب کی سرپرستی آپ ہی کیا کرتے تھے۔

پس ماندگان: آپ کے پسماندگان میں حضرت علامہ سید معین علی شہاب باعلوی حسینی تنگل، حضرت علامہ سید نعیم علی شہاب تنگل، حضرت سیدہ شاہدہ بی بی، حضرت سیدہ ساجدہ اور آپ کی زوجۂ محترمہ مخدومۂ اہل سنت حضرت  سیدہ شریفہ فاطمہ زہرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کو عمر خضر عطا فرمائے، صبر جمیل اور اجر عظیم عطا فرمائے۔ وہ جہاں رہیں سدابہار اور شاد و آباد رہیں۔

بیعت و خلافت: آپ کو صوفی با صفا، خاتمۃ المحققین حضرت علامہ و مولانا کنیت احمد مسلیار کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل تھا۔ اسی طرح آپ کو پیر طریقت، گل گلزار صابریت و حسینیت حضرت علامہ کنیالا مولی المعروف عبداللہ حاجی رحمہ اللہ سے سلسلہ عالیہ، قادریہ، چشتیہ، صابریہ نقشبندیہ و سہروردیہ کی خاص اجازت و خلافت کا گراں قدر تحفہ حاصل تھا۔ اسی روحانیت کا اثر ہے کہ آج پورے ہندوستان میں آپ کی مبارک اجازت کی قائم کی گئی محفل “مجلس النور” بڑے تزک و احتشام سے سجائی جاتی ہے، جس کے حسین اثرات پورے اہلسنت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

وفات حسرت آیات: آخر یہ چمکتا دمکتا ستارہ 6 مارچ 2022ء کو 74 سال کی عمر میں little flower hospital انگاملی، یرناگلم ضلع میں اس دار فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ رجعون۔ حضرت سید الأمہ کی رحلت سے پوری ملت اسلامیہ ہند سوگوار ہے۔ میری زبان گنگ ہوگئی، قلم نے لکھنا چھوڑ دیا؛ کیوں کہ تصور میں بس انہیں کا جلوہ ہی جلوہ ہے۔ جدھر دیکھتا ہوں ان ہی کی حسین صورت دکھائی دیتی ہے۔

دوستو! میں کیا کیا لکھوں!! لکھنے کو تو بہت کچھ ہے، مگر نہ دل قابو میں ہے، نہ ہی زبان و قلم۔ جب سے رحلت کی خبر سنی ہے دل اداس، ہوش و حواس از خود رفتہ اور دل و دماغ مضمحل ہے۔ دل یہ گواہی دے رہا ہے کہ یقیناً حوران بہشت آپ کا استقبال کر رہی ہوں گی۔ کیا خوب کہا فاضل بریلوی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ نے:

واسطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سنّی مرے
یوں نہ فرمائیں ترے شاہد کہ وہ فاجر گیا
عرش پر دھومیں مچیں وہ مومن صالح ملا
فرش سے ماتم اٹھے وہ طیّب و طاہر گیا

آخر میں اپنی اس ناقص و کوتاہ تحریر کو ان دعائیہ اشعار پر ختم کرتا ہوں:
ابر رحمت تیری مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے



Source link

Exit mobile version