Site icon Islamicus

امام احمد رضا اور تصوّرِ تعلیم (قسط-2)



عہد رضا کی صورت حال:

امام احمد رضا کا عہد بڑا ہی لرزا خیز تھا۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی تھیں۔ نوپید فتنوں نے برصغیر میں مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو منتشر کرکے رکھ دیاتھا۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان میں توہین و تنقیص کے لیے قلم کو جنبش دی جاچکی تھی، حالاں کہ قوموں کا یہ مزاج رہا ہے کہ اپنے پیشوا کی عظمتوں کے قصیدے پڑھا کرتی ہیں اور ان کے گُن گاتی ہیں، لیکن یہاں تو توہین و تنقیص کے پہلو تلاش کرنے والے وہ تھے جو عالم و مولوی کے منصب پر فائز تھے۔ در حقیقت وہ استعمار کے کاسہ لیس تھے… امام احمد رضا  نے اپنے قلم کے ذریعہ ایسے نظریات کی بیخ کنی کی جن سے عقائدِ اسلامی متزلزل ہورہے تھے اور عظمت و ناموسِ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر حرف آتا تھا، اس پر آپ کی ایک ہزار کے لگ بھگ تصانیف، حواشی اور تعلیقات شاہد عدل ہیں۔

عشق و عرفان:

آپ کی شخصیت کا اہم اور نمایاں پہلو حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و اُلفت اور عقیدت و وارفتگی ہے- محبت ’’اطاعت‘‘ پر آمادہ کرتی ہے۔ قرآن مقدس میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ

’’ اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا‘‘ ۳؎

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّالِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط

’’ اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘ ۴؎

مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی (م ۱۹۴۸ء) نے اپنے تفسیری حواشی میں بخاری و مسلم کے حوالے سے حدیث پاک بیان کی ہے: ’’سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔‘‘۵؎

دورِ حاضر میں امام احمد رضا کی شخصیت کو محبت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جانا اور پہچانا جاتا ہے- آپ کے عشق و عرفان کا تذکرہ صاحبانِ ادب اور نکتہ داں و نکتہ سنج میں ہی نہیں ہے بلکہ اس پر جامعات و یونیورسٹیوں میں ریسرچ اور تحقیق و تدقیق کامرحلۂ شوق طے کیا جارہا ہے۔ میسور یونیورسٹی میسور کرناٹک سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نجم القادری نے ’’امام احمد رضا اور عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کا اعزاز پایا۔ مقالۂ تحقیق بنگلور و ممبئی سے شائع ہو چکا ہے۔

محبت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے دُنیا بھر میں امام احمد رضا کی تعلیمات و افکار کا شہرہ ہے اور شش جہت مسلمانوں میں محبت و اُلفت اور عشق و عرفان کا یہ عنصر پروان چڑھ رہا ہے۔ عقیدے منور و تاباں اور افکار روشن و درخشاں ہو رہے ہیں، اور یہ اس درسِ زریں کا اثر ہے جو امام احمد رضا نے دیا؎

جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا ناز دوا اُٹھائے کیوں

فضیلت علم و علما:

علم کا حاصل کرنا نعمت و باعث برکت ہے ۔ پہلی وحی میں علم کی ترغیب دی گئی ہے۔ احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ علم سے متعلق ہے- علم کو مومن کی میراث فرمایا گیا- دور افتادہ منازل طے کر کے حصولِ علم کی تعلیم دی گئی ہے۔ سب سے افضل و اعلیٰ علم ’’دین کا علم‘‘ ہے۔ امام احمد رضا علم و علما کے فضائل سے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

’’ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جنہوں نے علم و علما کے فضائل عالیہ و جلائل غالیہ ارشاد فرمائے انہیں کی حدیث میں وارد ہے کہ علما وارث انبیا کے ہیں انبیا نے درہم و دینار ترکہ میں نہ چھوڑے، علم اپنا ورثہ چھوڑا ہے جس نے علم پایا اس نے بڑا حصہ پایا، 

ابودائود، ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور بیہقی نے حضرت ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے تخریج فرمائی کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ ارشاد فرماتے سنا، پھر انہوں نے فضیلت علم میں حدیث بیان فرمائی اور اس کے آخر میں فرمایا کہ بلاشبہ علما انبیا کے وارث ہیں اور انبیاء کرام درہم و دینار ورثہ میں نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے وراثت میں علم چھوڑا ہے پھر جس نے اس کو حاصل کیا تو اس نے وافر حصہ حاصل کیا۔‘‘ ٦؎

آپ کے نزدیک وہی علم ’’ عظیم دولت ‘‘ اور ’’نفیس مال ‘‘ ہے جو انبیاء کرام نے اپنے ترکہ میں چھوڑا اور اس کا جاننے والا عالم و مولوی کہے جانے کا مستحق ہے۔ آپ نے اپنے فتویٰ میں ایک حدیث پاک بیان فرمائی ہے:

نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: علم تین ہیں قرآن یا حدیث یا وہ چیز جو وجوب علم میں ان کی ہمسر ہو ( گویا اجماع و قیاس کی طرف اشارہ فرماتے ہیں) اور ان کے سوا جو کچھ ہے سب فضول۔۷؎

حوالہ جات:
(۳)     سورۃ النسآء: ۵۹ / کنزالایمان، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں

(۴)     سورۃ النسآء :۶۴ / کنزالایمان، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں 
(۵)     خزائن العرفان فی تفسیر القرآن، مشمولہ کنز الایمان، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں
(٦)    احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ ( جدید ) جلد ۲۳، مطبوعہ برکات رضا  پور بندر گجرات، ص ۶۲۶۔۶۲۷
(۷)    ایضاً، ص ۶۲۹
*
(بقیہ آئندہ)



Source link

Exit mobile version