Site icon Islamicus

امام احمد رضا اور تصوّرِ تعلیم (قسط-3)



فرض عین علم:

حدیث “طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم و مسلمۃ” کے تحت امام احمد رضا تحریر فرماتے ہیں: 
  ’’اور فرض عین نہیں مگر ان علوم کا سیکھنا جن کی طرف انسان بالفعل اپنے دین میں محتاج ہو، ان کا اعم واشمل و اعلیٰ و اکمل و اہم و اجل علم اصول عقائد ہے، جن کے اعتقاد سے آدمی مسلمان سنی المذہب ہوتا ہے، اور انکار و مخالفت سے کافر یا بدعتی، والعیاذ باللہ تعالیٰ، سب میں پہلا فرض آدمی پر اسی کا تعلّم ہے اور اس کی طرف احتیاج میں سب یکساں۔‘‘

۸؎
    امام احمد رضا کے نزدیک عقائد کے علم کے بعد ایک مسلمان کے لے جن علوم کا سیکھنا ضروری ہے ان میں درج ذیل علوم شامل ہیں:

(۱)  علم مسائل نماز یعنی اس کے فرائض و شرائط و مفسدات جن کے جاننے سے نماز صحیح طور پر ادا کرسکے۔ 
(۲)  پھر جب رمضان آئے تو مسائل صوم (یعنی روزہ کے مسائل) 
(۳)  مالک نصاب نامی ہو تو مسائلِ زکوٰۃ۔
(۴)  صاحبِ استطاعت ہو تو مسائلِ حج۔
(۵)  نکاح کیاجائے تو اس کے متعلق ضروری مسئلے۔
(٦)  تاجر ہو تو مسائل بیع و شرا (خرید و فروخت)۔
(۷)  مزارع (کاشتکار) پر مسائلِ ذراعت۔ 
(۸)  موجر (کرایہ یا اجرت پر کام کرانے والا) و مستاج (ٹھیکے دار یا مزدور) ہو تو اس پر مسائلِ اجارہ (کا جاننا ضروری ہے)۹؎

یہ اسلام کی خوبی و انفرادیت ہے کہ اس نے علوم کی بنیاد ان باتوں پر رکھی جن سے صالحیت اورپاکیزگی کا حصول ہوتا ہے۔ جیسے حلال و حرام کے امتیازات، قلب و ذہن کی صفائی و تطہیر اور اس کے لیے تواضع و اخلاص اور توکل کی ترغیب اسی طرح تکبر و ریا اور حسد سے احتراز۔ جدید تعلیمی نظام جسے مغرب کے رائج اُصولوں پر مدون کیا گیا ہے؛ اُس میں اِس طرح کے تصورات معدوم ہیں ۔ جب کہ اس علم کی احتیاج جو فرضِ عین ہے اس میں یہ بھی ہے، بہ مطابق امام احمد رضا:

’’ ہر اُس شخص پر اُس کی حالتِ موجودہ کے مسئلے سیکھنا فرضِ عین ہے اور انہیں میں سے ہیں مسائلِ حلال و حرام کہ ہر فرد بشر ان کا محتاج ہے اور مسائلِ علم قلب یعنی فرائضِ قلبیہ مثل تواضع و اخلاص و توکل وغیرہا اور ان کے طرق تحصیل اور محرمات باطنیہ تکبر و ریا و عجب و حسد وغیرہا اور ان کے معالجات کہ ان کاعلم بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے، جس طرح بے نماز فاسق و فاجر و مرتکب کبائر ہے یوں ہی بعینہٖ ریا سے نماز پڑھنے والا انہیں مصیبتوں میں گرفتار ہے۔ نسئل اللّٰہ العفو والعافیۃ (ہم اللہ تعالیٰ سے عفو و عافیت کا سوال کرتے ہیں) تو صرف یہی علوم حدیث میں مراد ہیں وبس۔‘‘

۱۰؎ تصورِ نصاب:

    عظیم اللہ جندران ایم ۔اے اردو جامعہ پنجاب (لاہور) ایم۔ ایڈ اسلامیہ یونیورسٹی (بہاولپور) نے تعلیمی ادارے کے نصاب کی تشکیل کے حوالے سے امام احمد رضا کے تصورِ نصاب کے ضمن میں جو نتائج اخذ کیے ہیں اور خصوصیات بیان کی ہیں، اس کے نکات کچھ اِس طرح ہیں:

(۱)  نصاب کی سب سے اہم خوبی یہ ہونی چاہیے کہ وہ نظریۂ حیات کے مطابق تیار کیا گیا ہو، اس میں کوئی بھی ایسی چیز شامل نہ ہو جو نظریۂ حیات سے متصادم ہو۔ 
(۲)  نصاب جامع ہو اور طلبہ کی نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کرے۔ 
(۳)  بے سود وقت کو ضائع کرنے والی تعلیم کسی کام کی نہیں۔ نصاب معاشرتی ضرورتوں کا آئینہ دار ہو۔ 
(۴)  نصاب میں تربیتی عنصر بھی شامل ہو۔ 
(۵)  نصاب عصری تقاضوں کے مطابق ہو لیکن دین متین کی بنیادوں پر استوار ہو۔ 
(٦)  آپ کے مطابق مروجہ سائنسی نظریات کو اسلامی نظریات کی روشنی میں پرکھ کر ہی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔
(۷)  نصاب اطاعت وحبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہو۔ 
(۸)  نصاب عملاً قابلِ قبول ہو۔ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مفید تعلیم دی جائے۔ 
(۹)  نصاب کی تیاری کے دوران مقصدیت بھی پیشِ نظر ہو اور وہ دین فہمی ہو۔ 
(۱۰)  ہر وہ علم و فن جو دین سے برگشتہ و غافل کرے اس سے دین و ایمان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اسے شاملِ نصاب نہیں ہونا چاہیے۔ 

عظیم اللہ جندران لکھتے ہیں کہ:’’ امام احمد رضا خان کا تصورِ نصاب جو ایک طرف تو آپ کی علمی قابلیت و صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے تو دوسری طرف قومی تعلیمی پالیسی کے گراں قدر رہنما اُصولوں سے بھی مزین ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وسعتِ علمی کے تحت آپ کے تجویز کردہ نصابی ماڈلز کو بھی ٹیچرز ٹریننگ اسکولز، کالجز، یونی ورسٹیز کے کورسز میں شامل کیاجائے تا کہ اس عظیم اسلامی مفکرِ تعلیم کے علمی ورثہ سے استفادہ کرسکیں۔‘‘

۱۱؎حوالہ جات:

(۸)    احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد ۲۳، مطبوعہ برکات رضا  پوربندر گجرات، ص ۶۲۳۔۶۲۴
(۹)    محمد عبدالمبین نعمانی، مولانا، علم دین و دُنیا بحوالہ فتاویٰ رضویہ جلد ۹، مطبوعہ رضا اکیڈمی مالیگاؤں، ص ۲۔۳
(۱۰)    احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد ۲۳، مطبوعہ برکات رضا  پوربندر گجرات، ص ۶۲۴
(۱۱)     عظیم اللہ جندران، امام احمد رضا کا تصورِ نصاب، مشمولہ یادگار رضا ۲۰۰۴، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی،مرتب غلام مصطفیٰ رضوی مالیگاؤں، ص ۱۰۶تا ۱۲۸

ابتدائی تعلیم کا نصابِ تربیت:

سلیم اللہ جندران ریسرچ اسکالر پنجاب یونیورسٹی ( لاہور) فتاویٰ رضویہ، جلد دہم کے حوالہ سے رقم

طراز ہیں:

    امام احمد رضا خان ابتدائی تعلیم کا نصاب نہایت تصریح و وَضاحت کے ساتھ بیان فرماتے ہیں:

(۱)  زبان کھلتے ہی اللہ اللہ، پھر پورا کلمہ لاالہ الا اللہ سکھائے۔ 
(۲)  جب تمیز آئے آداب سکھائے۔ کھانے پینے، ہنسنے بولنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں کی تعظیم، ماں، باپ، استاد اور دختر کو شوہر کی بھی اطاعت کے طرق و آداب بتائے۔ 
(۳)  قرآن مجید پڑھائے۔ 
(٤)  بعد ختمِ قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔ 
(۵)  عقائدِ اسلام وسُنّت سکھائے۔
(٦)  حضور اقدس رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم ان کے دل میں ڈالے۔ 
(۷)  حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے آل و اصحاب و اولیا و علما کی محبت و عظمت کی تعلیم دے۔ 
(۸)  سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کر دے۔ 
(۹)  علم دین خصوصاً وضو، غسل، نماز، روزہ کے مسائل سکھائے۔ 
(۱۰)  توکل، قناعت، زہد، اخلاص، تواضع، امانت، صدق، عدل، حیا، سلامتِ صدر و لسان وغیرہ خوبیوں کے فضائل بتائے۔ 
(۱۱)  حرص و طمع، حبِ دنیا، حبِ جاہ، ریا، عجب، خیانت، کذب، ظلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہ برائیوں کے رذائل پڑھائے۔ 
(۱۲)  زمانۂ تعلیم میں ایک وقت کھیلنے کا بھی دے کہ طبیعت پر نشاط باقی رہے۔
(۱۳)  زنہار زنہار (ہرگز ہرگز) بری صحبت میں نہ بیٹھنے دے کہ یارِ بد مارِ بد سے بدتر ہے۔  ۱۲؎

چوں کہ نصابِ تعلیم میں معلم (استاذ) کا کردار کلیدی ہوتا ہے، اور ابتدائی درس کے اثرات مستقبل کے لیے معاون ہوتے ہیں، اس لیے ابتدائی تعلیم میں تعمیرِ شخصیت کے پہلو کو کسی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ متعلم(شاگرد) اور تربیتِ اولاد کے ضمن میں سلیم اللہ جندران تحریر فرماتے ہیں:

’’مدرسہ میں استاذ کی شخصیت، گھر میں ماں باپ کی طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ امام احمد رضا خان ۵؍ تا ٦؍ سال کی عمر کے بچوں کے اسکول مدرسہ/ایجوکیشن کے آغاز پر والدین پر یہ ذمہ داری عائد کرتے ہیں کہ والد ’’بچے کو نیک، صالح، متقی، صحیح العقیدہ اور عمر رسیدہ استاد کے سپرد کرے اور بیٹی کو نیک، پارسا عورت سے پڑھوائے‘‘،اگر چہ آج کل کے حالات میں بچوں کے لیے نیک، متقی، صحیح العقیدہ اور عمر رسیدہ (کہنہ مشق/تجربہ کار) استاد کا مل جانا نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں ہے اور عام حالات میں نہایت کٹھن کام ہے۔ بچوں کی تعلیم کے ضمن میں والدین اگر اس قدر دلچسپی لیں تو ان کے بچوں کے یقیناً بہتر شخصیت کی تعمیر ممکن ہے۔‘‘

۱۳؎ استاذ کا مقام اور ادب و احترام:

جس طرح جسمِ انسانی میں قلب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اسی طرح پورے نظامِ تعلیم میں استاذ کی حیثیت ہوتی ہے۔ نصاب کتنا ہی عمدہ ہو لیکن اس کی تدریس بہتر نہ ہو تو نتائج منفی ظاہر ہوتے ہیں۔ استاذ کے بغیر تربیت کے مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔ متعلم کے لیے ضروری ہے کہ وہ استاذ کی عزت اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھے۔ اس کی عظمت کو مانے کہ بغیر اس کے تعلیم کا فیض حاصل نہیں ہوتا۔ امام احمد رضا نے استاذ کے وقار، ادب، احترام اور مقام کی وضاحت فرمائی ہے جسے نکات کی صورت میں تحریر کیا جاتا ہے:

(۱)  استاذ کا شاگرد پر ایک ساحق ہے برابر اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیبت میں بھی نہ بیٹھے، اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے اور اس کی بات کو رَد نہ کرے۔ 
(۲)  اپنے استاذ کے حقوق واجب کا لحاظ رکھے، اپنے مال میں کسی چیز سے اس کے ساتھ بخل نہ کرے۔ یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی خاطر حاضر کرے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے۔ 
(۳)  استاذ کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے۔ 
(٤)  جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک ہی حرف پڑھایا ہو اس کے لیے تواضع کرے، اور لائق نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے۔ 
(۵)  اپنے استاذ پر کسی کو ترجیح نہ دے اگر ایسا کرے گا تو اس نے اسلام سے؛ رشتوں سے ایک رسی کھول دی، 
(٦)  اور استاذ کی تعظیم سے ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہوا تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔ 
(۷)  عالم دین ہر مسلمان کے حق میں عموماً اور استاد علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خصوصاً نائب حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے، ہاں اگر وہ کسی خلافِ شرع بات کا حکم کرے ہرگز نہ مانے کہ: لاطاعۃ لاحد فی معصیۃ اللّٰہ تعالیٰ (اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں) مگر اس نہ ماننے میں گستاخی و بے ادبی سے پیش نہ آئے، فان المنکر لایزال بمنکر (گناہ کا ازالہ گناہ سے نہیں ہوتا)

١٤؎ حوالہ جات:

(۱۲)     ماہنامہ ضیاے حرم لاہور، نومبر ۲۰۰۵ء، ص ۴۱
(۱۳)     معارفِ رضا سالنامہ ۲۰۰۳ء کراچی، مقالہ تعمیرِ شخصیت اور تربیتِ اولاد کا اسلامی نفسیاتی ماڈل، ص ۸۲۔ ۸۳
(۱۴)     احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ (جدید) جلد ۲۳، مطبوعہ برکاتِ رضا پوربندر گجرات، ص ٦٣٧تا ٦٣٩
*
(بقیہ آئندہ)



Source link

Exit mobile version