Site icon Islamicus

جنگ آزادی میں حضرت سیدی علوی مولیٰ الدویلہ (ممبرمی سرکار) قدس سرہ العزیز. کا کردار



جنگ آزادی میں حضرت سیدی علوی مولیٰ الدویلہ (ممبرمی سرکار) قدس سرہ العزیز. کا کردار

ولادت و خاندانی پس منظر: قطب الزمان سید مولی الدویلہ قدس سرہ العزیز عرف ممبرم تنغل 23 ذی الحجہ 1166ھ بروز شنبہ یمن کے شہر حضر موت کے ایک گاؤں تریم میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد سید محمد بن سہل مولی الدویلہ اور والدہ سیدہ فاطمہ تھیں ۔ کم سنی میں والدین کریمین کے سایہء عاطفت سے محروم ہوگئے ۔ آپ کی خالہ نے آپ کی پرورش کی ۔ نہایت ذہین تھے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہی حاصل کی ۔محض آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا ۔ آپ کے ماموں حضرت سید حسن جفری صاحب دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے مقصد کے ساتھ ہند کے خطہ ملبار میں تشریف لا چکے تھے ۔ آپ کے دل میں بھی دعوت و تبلیغ کا جذبہ موجزن تھا ۔ دعوتی کام کا پختہ ارادہ لیے ہوئے آپ اپنی خالہ جان کے پاس آئے اور ہندوستان جانے کی اجازت طلب فرمائی ۔ آپ کی خالہ بھی نیک و صالحہ خاتون تھیں ۔ دین اسلام کی سچی پیروکار و دلدادہ تھیں ۔ اپنے بھانجے کا یہ جذبہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ۔ اور یمن سے تجارتی قافلے کے ہمراہ آپ کو ماموں جان کی خدمت میں روانہ کر دیا ۔

آمدِ ہندوستان: آپ تجارتی قافلے کے ساتھ ملبار کے علاقے کالی کٹ (موجودہ کوزی کوڈ) آئے ۔ اس وقت ریاست کیرالہ سرزمین ملبار کے نام سے مشہور تھی ۔ ایک رات وہاں قیام کرنے کے بعد آپ ضلع ملاپورم کے ترورنگاڈی تعلقہ میں ممبرم نامی گاؤں میں قدم رنجہ فرمایا ۔ آگے چل کر آپ اسی علاقے کے نام سے مشہور و معروف ہوئے ۔ آپ کی آمد سے قبل ہی آپ کے ماموں جان اس دنیا سے رحلت فرما چکے تھے ۔ آپ کے ماموں کی دختر نیک سے آپ کا نکاح ہوا ۔ اس وقت آپ کی عمر 17سال اور آپ کی اہلیہ کی 15 سال تھی ۔ جن سے آپ کے یہاں دو بیٹیاں تھیں ۔ سیدہ شریفہ علویہ اور سیدہ فاطمہ علویہ ۔ ایک بیٹی کا انتقال بچپن میں ہوا تھا ۔ آپ کی بیوی کے وصال کے بعد آپ نے دوسرا نکاح فاطمہ بنت ابی بکر المدنی، کوئلانڈی سے کیا ۔ ان سے ایک بیٹا ہوا جو سید فضل بن علوی قدس اللہ سرہ العزیز  کے نام سے مشہور ہے۔آپ نے تیسری شادی تانور کی عائشہ نامی خاتون سے کیا ۔ ان سے دو بیٹیاں تھیں ۔ آپ کا چوتھا عقد صالحہ نامی عورت سے ہوا جو انڈونیشیا کی تھیں ۔

ہندو -مسلم بھائی چارہ :آپ اسلام کے عظیم داعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دور اندیش مصلح قوم اور سماج سیوک بھی تھے ۔ آپ نے ہندو مسلم بھائی چارے کی فضا بنا رکھی تھی ۔ آپ نے ہر قوم کا کھلے دل سے استقبال کیا۔آپ نے تمام لوگوں کو یک قومی دھارے میں پرونے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ اس میں کامیاب بھی ہوئے ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کا خادم خاص اور ذاتی سیکرٹری ایک ہندو شخص تھا ۔ جس کا نام کونتھو نایر( Konthu Nair ) تھا ۔ آپ نے عوام کو سمجھایا کہ ہم ہندوستانی پہلے ہیں، بعد میں مسلم، ہندو، عیسائی وغیرہ ہیں۔ آپ اس بات کی تعلیم دیتے کہ کوئی انسان بڑا چھوٹا نہیں ہوتا، سب برابر ہوتے ہیں ۔آدمی کو معزز اس کی ذات یا اس کا پیشہ نہیں بناتا بلکہ اپنے اخلاق و کردار سے ایک آدمی عزت دار بنتا ہے ۔ آپ کی اس تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ لوگ آپ کے ہاتھوں پر ایمان لانے لگے ۔ آپ کی سیرت کا ہر کوئی قائل تھا ۔ بلا تفریق مذھب و ملت لوگ آپ کے دربار میں حاضر ہوتے ۔ آپ سے اپنے عائلی زندگی کے مسائل کا حل طلب کرتے ۔ آپ سے دیگر مسائل کے بارے میں مشورہ مانگتے ۔ آپ نے ہمیشہ قوم کو جوڑنے کا کام کیا اس لئے انگریز آپ سے خوف زدہ تھے۔ انہوں نے اس اتحاد کو توڑنے کی بہت تگ ودو کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔ 

انگریز حکومت کی مخالفت: ہندوستان کی آزادی میں علمائے دین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ جن میں علامہ فضل حق خیر آبادی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد قابل ذکر ہیں ۔ جنوبی ہندوستان کی ریاست کیرالہ کی مادری زبان ملیالم ہونے کی وجہ سے وہاں کے حالات کا علم کم ہی لوگوں کو ہے ۔ حضرت مولی الدویلہ عرف ممبرم تنغل کا نام بھی مجاہدین آزادی کی فہرست میں شامل ہے ۔ آپ نے برطانوی حکومت کی پرزور مذمت کی ۔ آپ انگریزی تسلط کے سخت خلاف تھے ۔ ان سے تقریری و تحریری طور پر نبرد آزما رہے ۔ آپ انگریز حکومت کے خلاف فتوے لکھ کر خفیہ طریقے سے لوگوں کے ما بین تقسیم کراتے ۔  بعد میں آپ کے شاگردوں نے ان فتوؤں کا مجموعہ “سیف البتار ” کے نام سے شائع کیا ۔ آپ نے اپنے حواریوں کے ہمراہ میسور آرمی میں شرکت کی تھی ۔انگریز حکمراں آپ اور آپ کے ساتھیوں سے بہت مرعوب تھے ۔ 1792 میں برٹش حکومت پورے ملبار پر قابض ہو چکی تھی ۔ سارا علاقہ ان کے زیر اقتدار تھا ۔بہت سے انگریز آفیسرز آپ سے ملاقات کرنے ممبرم آتے لیکن آپ  ملنے سے صاف انکار کردیا کرتے ۔ آپ نے مقامی مسلم سماج کے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف لڑنے پر ابھارا ۔ آپ نے بنفس نفیس بہت سی لڑائیوں میں شرکت فرمائی ۔ جن میں متوچیرا اور چیرور کی لڑائیاں قابل ذکر ہیں ۔
کورکَّل کی بغاوت: ضلع ملاپورم کے شہر منجیری میں بغاوت پھوٹ پڑی تھی ۔جس کا ذمہ دار انگریزوں نے آپ کو ٹھہرایا۔ اس فساد میں Kurikkal نامی شخص کے بیٹے کی موت ہوجاتی ہے ۔ پولس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا جس کی بنا پر آپ کو گرفتار کیا جاتا ۔ تاہم برٹش گورنمنٹ نے آپ کو کالی کٹ میں طلب کیا ۔ اس وقت کے کلیکٹر تھے جیمس واگی James Waugi۔ آپ ایک بڑے مجمع کے ساتھ کلیکٹر کے سامنے پیش ہوئے ۔ لوگوں کے اژدھام سے اعلٰی افسران کے ہوش اڑ گئے تھے ۔ انہیں اس بات کا خوف ہوا کہ اگر ہم انہیں گرفتار کرتے ہیں تو بات بہت بگڑ جائے گی اس لیے آپ کو باعزت چھوڑ دیا گیا ۔

وفات: چیرور کے مقام پر انگریزوں سے دو دو ہاتھ ہوتے وقت آپ کے پیر میں گولی لگ گئی تھی ۔ اس جنگ میں آپ زخمی بھی ہوگئے، کافی علاج کیا گیا ۔ لیکن آپ روبہ صحت نہ ہو سکے ۔ اسی زخم کے سبب آپ 1260 ھ میں اس دار فنا سے دار بقا کی طرف کوچ فرما گئے ۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔ آپ کا مزار شریف آج بھی مرجع خلائق بنا ہوا ہے ۔ آپ کا مزار اقدس تین دہائیوں سے دار الہدی اسلامک یونیورسٹی کے زیر اہتمام ہے۔ تقریباً پانچ ہزار سے زائد طالبان علوم نبویہ اس ادارے میں اپنی علمی تشنگی بجھا رہے ہیں ۔جس کا نصف سے زیادہ خرچ مزار کی آمدنی سے پورا ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔



Source link

Exit mobile version