اللہ عزوجل نے اس دنیا میں اپنے محبوب بندوں کے ذریعے لوگوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔ان محبوبوں کی صف میں کبھی انبیا شامل ہوئے تو کبھی اولیا، اصفیاتو کبھی اتقیا۔ان حضرات نے مختلف خطہ اراضی پر مختلف رنگ و نسل کے لوگوں میں اسلام کے آفاقی پیغامات پہنچا کر انہیں اللہ و رسول سے قریب کیا۔گم گشتگان راہ کو طریق نجات پر گامزن کیا ۔ان کے دلوں کو نورِایمان سے منور کیا ۔ان کے سینوں کو تجلیات الٰہیہ سے روشن کیا۔ ان کی پیشانیوں کوبارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز کرایا۔معبودان باطل کی محبتوں کو ان کے قلوب سے نکال کران کومحبت ِخدا و رسول کی آماجگاہ بنا دیا۔غیر اسلامی رسم ورواج کواسلامی رنگ،ڈھنگ عطا کیا۔ریختہ افکار و خیالات کو ایک سمت عطا کی ۔انھیں نفوس قدسیہ میں سے ایک عظیم ذات امام محمد بن ادریس شافعی علیہ الرحمہ کی ہے۔آپ قرشی النسب تھے ۔نبی کریم ﷺ کے اجداد سے سلسلہ نسب جا ملتا ہے ۔اس طرح آپ سرکاردوعالم ﷺ کے ہم قبیلہ ہوئے ۔آپ کی شرافت و بزرگی کے لیے اتنی نسبت ہی کافی ہے۔آپ کے بارے میں سرکار دوعالم ﷺ کی بشارت موجود ہے۔
عَن عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال ؛قال رَسولُ اللّٰہ ﷺ‘‘لاتَسُبُّوا قُرَیشاً فاِنَّ عالِمَھا یَمْلاُ الاَرْضَ عِلْماً’’۔(حلیۃ الاولیاء،جلد۹،ص ۶۵،طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ،ج ۱،ص ۱۹۸)
حضرت عبد ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ‘‘قریش کو برا بھلا نہ کہو،کیوں کہ اس کا ایک عالم روے زمین کو علم سے بھر دے گا ’’۔
سیرت نگاروں نے اس حدیث پاک کا مصداق امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایاہے۔آپ نے مکہ مکرمہ کے اجلہ فقہا و محدثین کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی ۔امام مالک کی خاص شاگردی کا شرف حاصل تھا۔فقہ و حدیث اور دیگرعلوم کے ساتھ شاعری بھی کیا کرتے تھے۔آپ خود اپنے متعلق فرماتے ہیں ‘‘اگر شعر علما کے لیے عیب نہ ہوتا تو میں اِس زمانے میں لبید بن ربیعہ سے بڑا شاعر ہوتا۔’’(دیوان الشافعی ،جلد ۱ ،ص۵۳)
اس سے آپ کی شعری دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔لیکن آپ نے فقہ اور حدیث کے ذریعے دین کی باتیں لوگوں تک پہنچائیں۔آپ کے اشعار پند و موعظت کاسرچشمہ تھے ۔آپ نے اپنے اشعار میں نصیحت کے بے شمار موتی پروئے ہیں ،تاکہ یہ اشعار امت مسلمہ کے لیے نفع بخش ہوں ۔ آپ نے اشعار کو بھی دین کی تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔آپ کے چندنصیحت آمیزاقوال وارشادات پیش کیے جاتے ہیں۔
٭ امام شافعی فرماتے ہیں کہ طالب علم کے لیے تین چیزوں کا ہوناضروری ہے۔ایک رزق حلال کا ہونا،دوسری چیز لمبی عمرکاہونا اورتیسری ذہانت کا ہونا ۔(حلیۃ الاولیاء ،ج۱،ص۱۲۰)
٭ آپ فرماتے ہیں کہ ‘‘ہم زمانے کو عیب لگاتے ہیں ،حالاں کہ عیب تو ہمارے اندر ہی ہے اور ہم زمانے والو ں کو بغیر عیب کے برا بھلا کہتے ہیں اگر زمانے والے ہمارے بارے میں بولیں تو ہماری ہی برائی کریں گے۔
٭ اس لیے کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اپنے اندر جھانک لینا چاہیے کہ وہ عیب کہیں ہم میں تو نہیں۔کیوں کہ ہم تو اپنے عیوب سے غافل رہتے ہیں جب کہ لوگ ہمارے عیوب پر مطلع رہتے ہیں۔
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ اکثر فرماتے‘‘علم وہ نہیں ہے جو صرف یاد کیا جائے ،بلکہ علم وہ ہے جو فائدہ پہنچائے ۔(حلیۃ الاولیاء ،جلد۹،ص ۱۲۳)
٭ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ‘‘ ذخیروں میں سب سے نفع بخش ذخیرہ تقویٰ ہے اور سب سے نقصان دہ ذخیرہ دشمنی ہے ۔(حلیۃ الاولیاء ،جلد۹،ص ۱۲۳)
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ رمضان المبارک میں ساٹھ قرآن پاک ختم کیا کرتے تھے اور فرماتے: میں نے کبھی بھی اللہ کی سچی یا جھوٹی قسم نہیں کھائی۔(حلیۃ الاولیاء ،جلد۹،ص۱۳۵)
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:‘‘جو دنیا حاصل کرنا چاہے تو اس پر علم حاصل کرنا ضروری ہے اورجو آخرت کی کامیابی چاہے اس پر بھی علم حاصل کرنا ضروری ہے۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص ۵۴)
٭ آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص علم کی مجلس میں بغیر قلم کاغذ کے حاضر ہوا ،وہ ایسے شخص کی طرح ہے جوچکی کے پاس بغیر گیہوں کے حاضرہوا۔(الامام الشافعی فقیہ السنۃ الاکبر،ص ۳۷۴)
یعنی ہمیشہ ضروریات کے سامان اپنے ساتھ رکھنا چاہیے ۔سپاہی جنگ پرنکلا ہو اور اس کے ہاتھ میں کسی بھی قسم کا اسلحہ نہ ہو تو وہ کیسے مقابلہ کرے گا ۔یوں ہی ڈاکٹر بغیر دوا اور اوزار کے کیسے علاج کرے گا۔ایسے ہی عالم بغیر قلم کاغذ اور کتاب کے دین کا کام کیسے کرے گا ؟
٭ آپ کو یہ بات ناپسند تھی کہ کوئی شخص ‘‘قال الرسول ’’کہے، آپ اس کی جگہ ‘‘قال رسول اللہ ﷺ ’’فرمایاکرتے تھے ،نبی کریم ﷺکی تعظیم کے لیے۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،صفحہ۶۶)
آپ کے اس قول سے پتا چلاکہ آپ نبی کریم ﷺکی کس درجہ تعظیم کیا کرتے تھے ۔ اس سے لوگوں کویہ بھی نصیحت کی کہ نبی کریم ﷺ کی تعظیم و توقیر اور آپ کے نام پاک کی عزت وتکریم میں ادنیٰ کوتاہی بھی روا نہیں ہے ۔
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ دنیا وآخرت کی بھلائیاں پانچ چیز وں میں ہیں؛
(۱)نفس کی بے نیازی میں۔
(۲)لوگوں کوایذانہ دینے میں۔
(۳)حلال کمانے میں۔
(۴)تقویٰ میں۔
(۵)اورہر حال میں اللہ عزوجل پر بھروسا کرنے میں۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،صفحہ۶۶۔الامام الشافعی فقیہ السنۃ الاکبر،ص ۳۷۶)
٭ آپ فرماتے ہیں کہ‘‘جو یہ بات پسند کرے کہ اللہ اس کا فیصلہ خیر کے ساتھ فرمائے،تواسے چاہیے کہ لوگوں سے حسن ظن رکھے۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،صفحہ۵۵)
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تین اعمال بہت سخت ہوتے ہیں ؛مال کی تنگی میں سخاوت ،خلوت میں تقویٰ ،جابر و ظالم شخص کے سامنے حق بات کہنا۔(الامام الشافعی فقیہ السنۃ الاکبر،ص ۳۷۶)
٭ آپ فرماتے ہیں کہ تم ہر کسی کو خوش کرنے پر قادر نہیں ہو ۔تو اس کی اصلاح کرو جو تمہارے اور اللہ کے بیچ ہے یعنی تمہاری اپنی ذات، پہلے اس کی اصلاح کرو۔پھر تم لوگوں کی پرواہ نہیں کروگے۔(الامام الشافعی فقیہ السنۃ الاکبر،ص ۳۷۶)
٭ امام شافعی فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں لوگوں کو علم سکھاؤں ،اور ایک حرف بھی اپنی طرف منسوب نہ کروں۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص۵۳) اس میں تکبر سے بچنے کی تلقین ہے ۔
٭ آپ فرماتے ہیں کہ علم کاحاصل کرنانفل نماز سے افضل ہے اورسورہ عصرسے نصیحت حاصل کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ‘‘ لوگ اس سورت (سورہ عصر) کے بارے میں غفلت میں ہیں ’’۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص۵۴)
٭ فرماتے ہیں ــ‘‘جس شخص پر دنیا کی محبت میں خواہشات نفس غالب ہوجائے تو اس کو دنیاداروں کی غلامی ضروری ہوجاتی ہے ، اور جو قناعت پر راضی رہے گا تواس کو دوسروں کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص۵۵)
٭ آپ فرماتے ہیں کہ جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ اس کے دل کو کھول دے یا منور کردے تو اس پر لایعنی گفتگواور گناہوں سے اجتناب ضروری ہے ۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس پر خلوت ،کم کھانا اور بیوقوفوں کے اختلاط سے بچنا ضروری ہے۔ (تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص۵۵)
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اگر میں جان لوں کہ ٹھنڈا پانی پینا میری مروء ت کو کم کر دے گا تومیں اسے نہیں پیوں۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص۵۵۔۔حلیۃ الاولیاء،ج۹،ص۱۲۴)
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے بھائی کی پوشیدہ طور پر نصیحت کی تو اس نے اس کی بھلائی چاہی اور اسے سنوارا،اور جس نے علانیہ نصیحت کی تو اس نے اس شخص کی بے عزتی کی اور اس کا برا چاہا ۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص۵۶)
٭ امام شافعی فرماتے ہیں کہ دنیا میں زاہدوں کی طرح رہو اور آخرت کی طرف راغب رہواور اللہ عزوجل کے ساتھ اپنے تما م معاملے میں سچے رہو تو کامیاب ہونے والوں کے ساتھ کامیاب ہو جاؤ گے۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص۵۶)
٭ آپ فرماتے ہیں کہ جس کے اندر تین خصلتیں ہوں گی اس نے ایمان کو مکمل کیا ۔جس نے بھلائی کا حکم دیا اور خود بھی عمل کیا اور برائی سے منع کیا تو خود بھی باز رہا اور اللہ کے حدود کی حفاظت کی (احکام شرع کاپابندرہا)۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص۵۶)
٭ فرمایاکہ‘‘ جس نے اپنے کانوں سے سناتو وہ حکایت کرنے والا ہوا اور جس نے اپنے دل سے سنا تووہ محفوظ کرنے والا ہوا اور جس نے اپنے فعل سے نصیحت کی تو وہ رہنمائی کرنے والا ہوا ’’۔(تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص۵۷) تو انسان کو اپنے فعل سے ہدایت کرنے والا ہونا چاہیے۔
٭ امام شافعی فرماتے ہیں کہ جو اس بات کا دعویٰ کرے کہ اس نے اپنے دل میں دنیا کی محبت اور اپنے خالق کی محبت کو جمع کیا ہے تواس نے جھوٹ بولا۔
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جو آخرت میں کامیابی حاصل کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ علم میں اخلاص(للہیت)پیدا کرے۔
٭ حارث بن سریج فرماتے ہیں کہ میں امام شافعی کے ساتھ ہارون رشید کے خادم کے گھر گیا تو اس کے گھر میں ریشم کا فرش بچھا تھا۔جب آ پ نے اسے دیکھا تو واپس ہوگئے اور فرمایاکہ اس پر بیٹھنا حلال نہیں ہے ۔ توآپ کو ایسے گھر میں لے جایا گیا جہاں ارمنی فرش بچھایاگیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ یہ اس سے اچھا ہے ۔یہ حلال ہے اور وہ حرام، اگر چہ یہ قیمت کے اعتبار سے مہنگا ہے ۔(الامام الشافعی فقیہ السنۃ الاکبر،ص۳۶۳ )
٭ ا مام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عقل مند وہ نہیں جسے خیر اور شر کے درمیان اختیار دیا جائے،تو وہ خیر کو اختیار کرے۔ عقل مند وہ ہے جسے دو شر (نقصان دہ چیزوں)کے درمیان اختیار دیا جائے تو وہ ان دونوں میں خیروالے کو اختیار کرے۔یعنی دو نقصان دہ چیزوں میں کم نقصان والی کواختیار کرے۔(الامام الشافعی فقیہ السنۃ الاکبر،ص ۳۷۹)
٭ عالم کے حلیہ کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں کہ علما کا رتبہ تقویٰ ہے۔ان کا حلیہ اچھے اخلاق ہیں۔ان کی خوبصورتی نفس کی پاکیزگی ہے۔علما ء کا حسن نفس کی شرافت،علم کی زینت ،تقویٰ اور برد باری میں ہے ۔(الامام الشافعی فقیہ السنۃ الاکبر،ص۳۷۵)
٭ عالم اور غیر عالم کی صفات بیان کرتے ہوئے امام شافعی فرماتے ہیں کہ عالم سے ان چیزوں کے بارے میں بھی سوال کیا جاتا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے اوران کے بارے میں بھی سوال کیاجاتاہے جنہیں وہ نہیں جانتا ہے ۔تو جن کے بارے میں جانتاہے،ان کے متعلق اس کا علم پختہ ہو جاتا ہے اور جن چیزوں کو وہ نہیں جانتا ہے ،وہ ان کا علم حاصل کرنے میں لگ جاتا ہے اورایسے وقت جاہل سیکھنے کے معاملے میں غصہ کرتا ہے اور تعلم سے بھاگتا ہے ۔
٭ امام شافعی فرماتے ہیں کہ تکبر بری عادتوں میں سے ہے ۔ مزید فرماتے ہیں: تواضع پسندیدہ عادات میں سے ہے۔تواضع محبت دیتی ہے اور قناعت راحت فراہم کرتی ہے۔
٭ طبیعت اور طلب علم کے متعلق فرماتے ہیں:طبیعت زمین ہے ۔ علم بیج ہے اور علم طلب سے ملتا ہے۔ جب طبیعت قابل ہوگی تو علم کی کھیتی لہلہائے گی اور اْس کے معانی و مطالب شاخ در شاخ پھیلیں گے۔
٭ طرز اِستدلال کے متعلق فرماتے ہیں:بہترین استدلال وہ ہے جس کے معانی روشن اور اْصول مضبوط ہوں اور سننے والوں کے دل خوش ہوجائیں۔
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مروء ت اور نرمی کے چار ارکان ہیں ؛ حسن اخلاق،سخاوت ،تواضع ونرمی اور قربانی کا جذبہ ۔
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال صوفیہ کی صحبت میں گزارے۔میں نے ان سے صرف دو حرفوں کا ہی استفادہ کیا۔الوقت سیف؛ وقت تلوار کی طرح ہے ۔
٭ جب میں معاف کرتا ہوں اور کسی سے کوئی بغض نہیں رکھتا۔تو میں اپنے دل میں غموں سے راحت محسوس کرتا ہوں ۔
٭ جب تم کسی بے وقوف سے گفتگو کرو تو اس کا جواب مت دو ،اس کو جواب دینے سے زیادہ بہتر تمہارا خاموش رہنا ہے۔ (دیوان الشافعی ،جلد ۱،ص۳۹)
٭ جس نے ایک گھڑی بھر تعلیم کی سختی نہ چکھی ہوتووہ عمر بھر جہالت کا گھونٹ پیتا ہے ۔ (دیوان الشافعی ،جلد ۱،ص۴۱)
٭ کتنے ہنسنے والے ایسے ہیں جن کے سروں پر موت منڈلا رہی ہے ۔اگر وہ اسے جان لیں تو غم سے مر جائیں۔(دیوان الشافعی،جلد ۱ ،ص۵۴)
شَکوتُ الی وکیع سوء حفظی
فارشدنی الیٰ ترک المعاصی
واخبرنی بان العلم نور
و نور اللّٰہ لایُھدی لعاصی
(دیوان الشافعی ،جلد ۱ ،ص۷۱)
٭ ترجمہ: میں نے وکیع کی بارگاہ میں اپنے حافظے کی خرابی کی شکایت کی،تو انہوں نے گناہوں کو ترک کرنے کی نصیحت کی ،اور مجھے بتایا کہ علم نور ہے اور اللہ کا نور کسی گناہ گار کو نہیں دیا جاتا۔
آپ کی اس نصیحت پر غور کرنے پر روح کانپ اٹھتی ہے کہ لوگ اپنے شب و روز گناہوں سے تاریک کیے رہتے ہیں اور علم حاصل کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔جہاں تاریکی ہوگی وہاں نور علم کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔
٭ فرمایاکہ جب ضرورتوں کی کثرت ہویعنی کئی چیزیں ضروری ہوں توتم اس سے شروع کرو جو ان میں سب سے اہم ہے۔ (تہذیب الاسماء واللغات ،ج۱،ص۵۶)
٭ آپ فرماتے ہیں کہ ایسے شہر میں سکونت اختیار مت کرو جس میں کوئی عالم نہ ہو جو تمہیں تمہارا دین سکھائے ۔یا کوئی طبیب نہ ہو جو تمہیں تمہارے جسم کے معاملات سے باخبرکرے ۔
٭ امام شافعی علیہ الرحمہ رات کو تین حصے میں تقسیم فرماتے ۔پہلے حصے میں تحریری کام کرتے،دوسرے حصے میں نمازیں پڑھتے اور تیسرے حصے میں آرام کرتے ۔(حلیۃ الاولیاء ،جلد۹،ص۱۳۵)
آپ کی اس ترتیب اور نظم و ضبط سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی رات کو حصو ں میں تقسیم کر یں اور اسی کے مطابق کام کریں۔اگرہم بزرگان دین کے شب و روز کا جائزہ لیں تومعلوم ہوگا کہ ان کے اوقات منضبط ہواکرتے تھے ۔عبادات اور معمولات زندگی کے اوقات مقررہوتے تھے۔اسی کے مطابق زندگی گزارتے ۔آج اس بھاگ دوڑ کی زندگی میں ہر شخص کامیابی کے لیے کوشاں ہے۔کامیابی کے لیے مختلف ذرائع اپناتا ہے تووہیں ٹائم مینجمنٹ پر بڑی بڑی فیس ادا کرکے لیکچرس سنتاہے تاکہ اپنے اوقات کی صحیح تقسیم کرے اور اس کے ذریعے کامیابیوں کو سرکرے۔ ایسوں کو چاہیے کہ بزرگان دین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں اوران پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
٭ امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر میں اس بات پر قادر ہوتا کہ میں تجھے علم کھلاوں تو میں ضرورتمہیں کھلا تا۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے یہ وہ ارشادات و اقوال ہیں جوآب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں اوریہ اتنے قیمتی ہیں کہ جن پر عمل کرکے ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ اگر ان اقوال کی صحیح طریقے سے شرح لکھی جائے تو کئی دفتر تیار ہو جائیں۔ اس لیے ان کو ہمیں حرز جاں بنا لینا چاہیے۔ اپنے سامنے طغرا بنا کر رکھنا چاہیے کہ یہ اس امام کے اقوالِ حکمت ہیں جوامت کا خیرخواہ،فقہ و اجتہاد کا مالک اور زہد وتقویٰ کا خوگر تھا۔جس نے اپنی زندگی استنباط مسائل اور ترسیل احکام شریعت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔اللہ ان کی نیکیاں قبول فرمائے ،ان کو بہتر سے بہتر جزا دے ،اچھوں میں ان کا مقام بلند سے بلندتر کرے اور ان کے فیضان علم سے ہمیں حصہ عطا فرمائے۔آمین بجاہ سیدالمرسلین علیہ وآلہ وصحبہ الصلوٰۃ والتسلیم۔