Site icon Islamicus

شیخ الاسلام حضرت علامہ سید شاہ غلام نجف قادری محدث عظیم آبادی قدس سرہ



شیخ الاسلام حضرت علامہ سید شاہ غلام نجف قادری محدث عظیم آبادی قدس سرہ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 
بڑی مدت سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 

آفتابِ علم و ولایت ، مہتابِ شریعت و طریقت ، جامع العلوم و الفنون ، شیخ الاسلام حضرت علامہ سید شاہ غلام نجف قادری محدث عظیم آبادی قدس سرہ ( متوفیٰ : ۱۳۰۸ ھ / ۱۸۹۰ ء ) ایک ہشت پہلو شخصیت کا نام ہے ۔ آپ علم و عمل کا پیکرِ حسین ، خلوص و للّٰہیت کا مرقعِ جمیل ، زہد و تقویٰ اور طہارت و تقدس کی چلتی پھرتی تصویر ، عشق و وفا کا مجسمہ ، علم و آگہی کا سورج ، حسنِ اخلاق کی شبنمی پھوہار اور بصیرت و دانائی کا ایک قابلِ رشک نمونہ تھے ۔ مادرِ وطن نے تیرھویں صدی ہجری میں جن قابلِ رشک فرزندوں کو وجود بخشا ہے ، آپ ان میں سے ایک تھے ۔ آپ کی ولادت ۲۱ / رمضان المبارک ۱۲۳۳ ھ کو صبحِ صادق کے وقت خانقاہ شاہ ارزاں ، عظیم آباد ( پٹنہ ) ، بہار میں ہوئی ۔ جس رات کی صبح آپ کی ولادت ہوئی ،  اسی رات تہجد کی نماز سے قبل محبوبِ رب العالمین حضرت سید شاہ کریم بخش قدس سرہ نے خواب دیکھا کہ حضرت مولیٰ علی شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم فرما رہے ہیں کہ آج جنیدِ ثانی ( سید شاہ عباد اللہ ) کے ایک بچہ پیدا ہوگا جو ہمارے ہی نقشِ قدم پر چلے گا۔ میں نے اس کا نام ” غلام نجف ” رکھا اور ولیوں کے امام حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کے رکھے ہوئے نام پر والدین نے آپ کا نام غلام نجف رکھا ، جس کا اثر یہ ہوا کہ یہی بچہ آگے چل کر علم و حکمت اور عرفان و ولایت کا تاجدار بن کر ابھرا ۔ آپ ایک عظیم علمی و روحانی خانوادے کے چشم و چراغ تھے ۔ لیکن آپ کی تعلیم و تربیت کیسے ہوئی اور آپ کے اساتذہ کون ہیں ؟ ان باتوں کی تفصیل معلوم نہ ہو سکی ۔ آپ محبوبِ رب العالمین حضرت سید شاہ کریم بخش قدس سرہ کے مرید تھے ۔ آپ کے والد گرامی جنیدِ ثانی ، عارفِ باللہ حضرت سید شاہ عباد اللہ عظیم آبادی قدس سرہ ، اپنے وقت کے جلیل القدر بزرگ ، بلند پایہ صوفی اور عارفِ کامل تھے اور ان کے علم و عرفان کا تذکرہ زبان زدِ خاص و عام تھا ۔  

شہرت و مقبولیت   : 

 قابلِ رشک دینی و ملی خدمات ، علوم و فنون میں مہارت اور ولایت و روحانیت کے بلند مقام پر فائز ہونے کے باعث شیخ الاسلام سید شاہ غلام نجف قدس سرہ کی ذات مرجعِ عوام و خواص تھی ۔ جب آپ کی شہرت کا آوازہ بلند ہوا تو طلبۂ علومِ اسلامیہ دور دراز مقامات سے سفر کر کے آپ کی بارگاہ میں اکتسابِ فیض کے لیے آنے لگے ۔ یہاں تک کہ علمائے وقت اور مشائخِ عہد بھی آپ کی زیارت کو آتے ۔ تذکرہ علمائے بہار ( جلد اول ) میں مرقوم ہے کہ آپ کے علم ، آپ کی دانش وری ، آپ کے زہد و تقویٰ اور آپ کے روحانی کمالات کا شہرہ آپ کے عہد ہی میں دور دور تک پھیل چکا تھا ۔ ملک اور بیرون ملک سے تشنگانِ علم و عرفان آپ کے پاس آتے اور اپنی علمی و روحانی پیاس بجھاتے ۔ آپ کے تبحّرِ علمی اور روحانی بلندی کا شہرہ سن کر اپنے دور کی بعض اہم اور علم شخصیتیں بھی آپ کی خانقاہ آپ سے ملاقات کرنے تشریف لائیں ۔ ان میں ایک اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے ۔ 

( تذکرہ علمائے بہار ، جلد اول ، ص : ۲۱۹ ، ناشر : شعبۂ نشر و اشاعت ، جامعہ اسلامیہ قاسمیہ ، بالا ساتھ ، سیتامڑھی )

علمی مقام و تصنیفی خدمات  : 

شیخ الاسلام حضرت علامہ سید شاہ غلام نجف محدث عظیم آبادی قدس سرہ شریعت و طریقت کے سنگم  اور علم و معرفت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے ۔ آپ کی تہہ دار فکر و شخصیت نے پورے عہد کو متاثر کیا ہے ۔ آپ ماہرِ علوم و فنون ، حاویِ اصول و فروع ، آفتابِ چرخِ علم و حکمت اور غواصِ بحرِ معرفت تھے ۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بہت سارے اوصاف و خصوصیات اور علمی و روحانی محاسن و کمالات سے نوازا تھا ۔ آپ دینی علوم کی بیشتر شاخوں پر عقابی نظر رکھتے تھے ۔ ذہانت و طباعی ، علمی  لیاقت ، فنی مہارت اور مختلف میدانوں میں قابلِ رشک خدمات انجام دینے کے سبب ” شیخ الاسلام ” کے لقب سے پکارے جاتے تھے ۔ آپ نے بیشتر علوم و فنون میں قابلِ قدر علمی و تصنیفی خدمات انجام دی ہیں ۔

 ڈاکٹر محمد حفظ الرحمٰن ( سابق پروفیسر شعبۂ تعلیم و تربیت الفلاح یونیورسٹی ، فرید آباد ، ہریانہ ) آپ کے علمی تبحر اور ہمہ جہت علمی و تصنیفی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں  :

آپ کی نگاہ قرآنیات ، حدیث ، اصولِ حدیث ، سیرت ، فقہ ، اصولِ فقہ ، تاریخ ، ادب ، فضائل و مناقب ، تکسیر ، اخلاق ، تفسیر ، صرف ، نحو ، منطق ، فلسفہ اور ہیئت پر گہری تھی ۔ ان میں بیشتر علوم پر حضرت شیخ الاسلام ( شاہ غلام نجف محدث عظیم آبادی ) نے کتابیں لکھی ہیں ۔ استاذ الکل حضرت سید شاہ ابراہیم حسین قدس سرہ نے لکھا ہے  :  ” حضرت شاہ غلام نجف قدس سرہ العزیز کی تصانیف و تالیفات سو سے زائد ہیں ” ۔ لیکن بیشتر کتابیں ناپید یا گُم ہیں ۔ یہاں پر میں صرف انہیں کتابوں کا ذکر کروں گا جو میرے ذاتی کتب خانہ میں موجود ہیں یا میری نظر سے کسی کتب خانے میں گذر چکی ہیں ۔

( ۱ )  تفسیر سورہ فاتحہ  ( ۲ )  اسناد بسم اللہ  ( ۳ )  فضائل درود  ( ۴ )  رسالہ اعمال و اوراد  ( ۵ )  رسالہ میلاد  ( ۶ )  مجموعۂ فتاویٰ  ( ۶ )  کلیاتِ نجف  ( ۷ )  لعنۃ اللہ و الملائکۃ و الناس  ( ۸ )  سید الانبیاء ﷺ  ( ۹ )  جوازِ محفلِ مولود  ( ۱۰ )  فضائلِ نبوی  ( ۱۱ )  تزکیۂ نفس  ( ۱۲ )  المرتضیٰ  ( ۱۳ )  مناقبِ غوث  ( ۱۴ )  جوازِ محفلِ سماع  ( ۱۵ )  منتخب احادیث مع اردو ترجمہ و تشریح  ( ۱۶ )  حاشیۂ جلالین شریف ۔ 

ملفوظات  : 

( ۱۷ )  شجرۃ الیقین فی جنت النعیم ۔ مرتبہ :  شاہ رضا حسین ، مطبوعہ : نور الانوار پریس ، آرہ ، سن :  ذی قعدہ ۱۲۹۲ ھ ۔ 
( ۱۸ )  احسن الشہادتین فی رموز السبطین ۔ مرتبہ : شاہ رضا حسین ، مطبوعہ : نور الانوار پریس ، آرہ ، سن : ۱۲۹۴ ھ ۔ 
( ۱۹ )  نعمتِ ارزاں ، مرتبہ : عبد الرزاق ( قلمی ۱۳۰۴ ھ ) 
( ۲۰ )  لطیف الخبیر ۔ مرتبہ : شاہ رضا حسین ، مطبوعہ : یونین پریس الپنچ ، بانکی پور ، پٹنہ ، سن : ۱۳۰۷ ھ ۔ 
( ۲۱ )  ارشادِ عظام ۔ مرتبہ : سید شاہ ابراہیم حسین ، ( قلمی ۱۳۰۸ ھ ) 
( ۲۲ )  نورٌ علیٰ نور ۔ مرتبہ : شاہ رضا حسین ۔ مطبوعہ : یونین پریس الپنچ ، بانکی پور ، پٹنہ ، بہار 

( تذکرہ صوفیائے بہار ، جلد اول ، ص : ۲۲۸ / ۲۳۹ ، ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی )

حضرت شاہ غلام نجف قادری قدس سرہ کی دینی ، علمی ، تبلیغی ، تدریسی ، ادبی ، قلمی ،  تصنیفی اور روحانی خدمات قابلِ رشک اور لائقِ تقلید ہیں ۔ آپ زندگی بھر دین و مذہب کی ترویج و اشاعت میں سر گرمِ عمل رہے اور اپنی تبلیغی مساعی سے نہ صرف گم گشتگانِ راہ کو صراطِ مستقیم پر گامزن فرمایا ، بلکہ سینکڑوں غیر مسلموں کو کلمہ پڑھا کر حلقۂ اسلام میں داخل فرمایا ۔ ” تذکرہ صوفیائے بہار ” کا یہ اقتباس دیکھیں  : 

آفتابِ شریعت حضرت دیوان شاہ ارزاں رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت سید شاہ غلام نجف تک کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس سلسلہ کے تمام بزرگ عبارت و ریاضت کے گہرے انہماک کے ساتھ اسلام کی حفاظت و بقا کے لیے ہمیشہ کوشاں اور مسلمانوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے متفکر رہے ۔ اس مسندِ رشد و ہدایت پر بیٹھنے والا ہر شخص اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملانا ، اللہ اور اللہ کے رسول کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچانا اپنی ذمہ داری سمجھتا رہا اور الحمد للہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس خانقاہ کے بزرگوں کے ہاتھوں پر جس بڑی تعداد میں غیر مسلم حضرات حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے ، اس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی ۔ آپ قدس سرہ ( شاہ غلام نجف ) سجادگی سے قبل اپنے اسلاف کی طرح تبلیغ دین کے لیے دور دراز علاقے میں تشریف لے جاتے اور غیر مسلموں کو دعوتِ اسلام دیتے ۔ آپ کی تبلیغ سے چمپارن میں سینکڑوں غیر مسلم حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے ۔ ان کی نسل آج بھی اسلام کے راستے پر چل رہی ہے اور ان میں بعض وہ لوگ ہیں جو اب ” ٹھاکورائی ” کہلاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ پنجاب میں بھی آپ نے تبلیغِ دین کا خاص کام کیا اور وہاں بھی بڑی تعداد میں لوگ آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ 

( تذکرہ صوفیائے بہار ، جلد اول ، ۲۲۵ / ۲۲۶ ، مطبوعہ : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی )

وفاتِ حسرت آیات   : 

عالم و فاضل ، محدث و مفسر ، محقق و مفکر ، واعظ و مبلغ ، عابد و زاہد ، عارف و صوفی ، مصنف و مؤلف ہونے کے علاوہ آپ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے ۔ ” کلیاتِ نجف ” آپ کی شعری یادگار ہے ۔ یکم شعبان ۱۳۰۸ ھ / روز پنجشنبہ بوقت صبحِ صادق آپ کا وصالِ پُر ملال ہوا اور خانقاہ شاہِ ارزاں ، عظیم آباد ( پٹنہ ) میں مدفون ہوئے ۔ آپ اس خانقاہ کے ساتویں سجادہ نشیں تھے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے ہم سب کو مالا مال فرمائے ۔ آمین !!



Source link

Exit mobile version