Site icon Islamicus

حضور سید العلما: حیات وخدمات



سید العلما سند الحکما حضرت مولانا مفتی حکیم سید آلِ مصطفیٰ عرف سید میاں قادری برکاتی مارہروی علیہ الرحمتہ والرضوان جو حضور خاتم الاکابر حضرت سید شاہ آلِ رسول علیہ الرحمتہ والرضوان کے نواسے کے صاحبزادے تھے- والدہ ماجدہ سیّدہ شہر بانو بیگم بنت سید شاہ اسماعیل حسن صاحب تھیں- حضور سید العلما سند الحکما حضرت سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری برکاتی علیہ الرحمتہ والرضوان کی ولادتِ باسعادت ٢٥/رجب المرجب ١٣٣٣/ ہجری_ ٠٩/ جون ١٩١٥/عیسوی میں بدھ کے روز مارہرہ مطہرہ میں ہوئی- حضور سید العلما نے بہت چھوٹی سی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کر لیا تھا آپ نے فارسی کی پہلی کتاب اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھی اور نانا جان حضرت سید شاہ اسماعیل حسن صاحب اور ماموں جان حضرت تاج العلما حضرت سید شاہ اولادِ رسول محمد میاں قادری صاحب سے درسی علوم حاصل کیے- حضور سید العلما جامعہ معینیہ اجمیر شریف میں حضور صدر الشریعہ حضرت مولانا شاہ امجد علی خان اعظمی علیہ الرحمتہ والرضوان کے بہت ہی چہیتے شاگردوں میں سے تھے-

حضور سید العلما سند الحکما حضرت سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری علیہ الرحمتہ والرضوان کو آپ کے استاذ محترم کی خاص اجازت حاصل تھی کہ آپ مدرسہ کے وقتوں کے علاوہ بھی جب چاہیں سبق لے سکتے تھے- آپ نے مولوی دینیات میں ایم. اے کے برابر ڈگری کی سند پنجاب بورڈ سے حاصل کی طبیہ کالج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے طب یونانی میں ڈی. آئی. ایم. ایس کا ڈپلوما لیا- حضور سید العلما حکیم عبد اللطیف کے چہیتے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے- حضور سید العلما ١٤٤٩/ میں عروس البلاد ممبئی تشریف لے گیے اور وہاں آپ نے امامت شروع کر دی آپ کھڑک مسجد کے خطیب و امام اور جماعت بقر قصاب کے رجسٹر قاضی تھے- حضور سید العلما نے اپنے نانا جان حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دین کی تبلیغ کے لیے اپنا سب کچھ وقف فرما دیا تھا- دین کی تبلیغ اہل سنت کے قائد کی اشاعت اور باطل فرقوں کے رد کے سلسلے میں ملک بھر کا دورہ کیا اور زمانے کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت فرمائی_
        حضور سید العلما سند الحکما حضرت سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری علیہ الرحمتہ والرضوان جید عالم دین، مستند مفتی، خوش الحان حافط و قاری، حکیم حاذق، ممتاز مناظر اور اپنے وقت کے خطیب اعظم تھے- حضور سید العلما کے خطاب کا ڈنکا پورے ہندوستان میں بجتا تھا- ایک ہی نشست میں چار سے پانچ گھنٹے خطاب فرما دینا تو حضور سید العلما کے لیے ایک عام بات تھی- حضور سید العلما اپنے اسلوب خطابت کے لیے بہت مشہور تھے- آپ جب اسلامی تاریخ یا واقعے کو بیان فرماتے تو ایسا لگتا کی کلاس بیٹھی ہے اور ایک بہترین استاد اپنے بچوں کے دل ودماغ پر تاریخ اسلام کو رقم کررہا ہے- حضور سید العلما جب سیاسی موضوع پر تقریر فرماتے تو بڑے بڑے سیاسی خطیبوں اور رہنماؤں کی بولیاں بند ہو جاتیں- جب عشقِ رسول صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم اور کربلا کے واقعات کے موضوع پر حضور سید العلما بیان فرماتے تو ثابت کر دیتے کہ نبی زادہ اور علی کا جانشین ناموسِ رسالت اور اہل بیت کی مدحت میں شمشیر بن گیا ہے- عرس قاسمی برکاتی کی سجادگی کی رات نانا ابا حضور سید العلما کی تقریر کے لیے خاص ہوا کرتی تھی- خاندان برکات کی عظمت و روحانیت پر حضور سید العلما کے یاد گار خطاب ہوا کرتے تھے- ایک مرتبہ کسی نعت خواں نے یہ شعر پڑھا_

                      عمل  سے علی  کے یہ ثابت  ہوا
                      کہ  اصل عبادت تیری بندگی  ہے

بس! پھر کیا علی کا خون جوش میں آگیا وجد کی کیفیت طاری ہوئی، تمام کپڑے طار طار کر لیے- حضور احسن العلما علیہ الرحمتہ والرضوان نے اپنے بڑے بھائی صاحب کے حالات کو پڑھ لیا اور ہاتھ پکڑ کر حضور شمس مارہرہ کے روضے میں تھوڑی دیر کو تنہا چھوڑ آئے جب حالات ٹھیک ہوئے تو نانا ابا باہر تشریف لائے اور اسی شعر کے پس منظر میں دیر رات تک خطاب فرمایا_
   عروس البلاد ممبئی کی سرزمین پر جو آج سنیت کی بہاریں ہیں وہ الله رب العزت کے فضل سے حضور سید العلما سند الحکما حضرت سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری برکاتی مارہروی علیہ الرحمتہ والرضوان کی ذاتِ مبارکہ کی وجہ سے ہیں- ممبئی کا جلوس محمدی ہو یا جلوس غوثیہ، محرم الحرام کی مجالس ہوں یہ سب کے سب حضور سید العلما حضرت سید شاہ آلِ رسول سید میاں قادری برکاتی علیہ الرحمتہ والرضوان کی کوشش کا نتیجہ ہیں- محرم الحرام کی محفلوں کو جس نظم و ضبط کے ساتھ حضور سید العلما نے ترتیب دیا تھا وہ قابلِ داد و تحسین ہیں- حضور سید العلما پورے ہندوستان سے علمائے دین کو بلواتے، ممبئی کی مسلم بستیوں میں انجمن تیار کراتے، پھر علما کو خطاب کے لیے مقرر فرماتے، پھر آخر کے دنوں میں علما اور عوام کو بھنڈی بازار میں جمع کرکے واقعاتِ کربلا کا اختتامی جلسہ منعقد کرتے- حضرت سیدنا امام حسین کی شہادت پر حضور سید العلما کا خطاب سننے کے لیے غیر مسلک کے لوگ بھی جمع ہو جاتے وہ جانتے تھے کہ گھر کی بات گھر والے ہی صحیح بتائیں گے_
     حضور سید العلما سند الحکما حضرت سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری برکاتی علیہ الرحمتہ والرضوان اپنی تنظیمی اور قائدانہ صلاحیتوں کے حوالےسے اور اپنی ذات کے حوالے سے اس دور میں تنہا نظر آتے تھے- یہ وہ دور تھا کہ جب تاجدارِ اہلسنت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان اور حضرتِ علامہ شاہ عبد القادر صاحب بدایونی ( مفتی اعظم، حیدر آباد) حضور محدثِ اعظم ہند کچھو چھوی، حضور حافظ ملت، حضور محبوب ملت، اور حضرتِ مجاہد ملت علیہ الرحمتہ والرضوان جیسے علما اور مشائخ جماعت اہلسنت میں موجود تھے- ایسے میں حضور سید العلما حضرت سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری برکاتی علیہ الرحمتہ والرضوان نے بد عقیدگی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور اپنے مذہب و مسلک کی حقانیت کو تسلیم کرانے کا بیڑا اٹھایا اور ایک ایسا پلیٹ فارم دیا جہاں سے ملت کی قیادت اور پھرپور رہنمائی ہوئی- حضور سید العلما کو ان تمام مشائخ نے متفق ہوکر صدر مانا حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان آخری سانس تک سنی جمعیتہ العلما کے صدر رہے- حضور سید العلما علیہ الرحمہ پورے ملک میں گھر بار چھوڑ کر ملت اور سنیت کے لیے کام کرتے رہے_
      ایک مرتبہ حضور سید العلما سند الحکما حضرت سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری علیہ الرحمتہ والرضوان تنظیم کے کچھ لوگوں کے رویے سے ناراض ہوئے اور استعفیٰ دے دیا- حضور سید العلما کے استعفٰی کی خبر سن کر بریلی شریف سے تاجدارِ اہلسنت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمتہ والرضوان ممبئی تشریف لے گیے اور مسجد کھڑک میں جاکر حضور سید العلما کے قدموں میں اپنا عمامہ رکھ کر ارشاد فرمایا ،،سید میاں! یہ عمامہ تب تک قدموں میں رہے گا جب تک استعفی واپس نہ ہوگا،، حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان قوم کے ان بیباک اور مخلص لیڈروں میں سے تھے جو حکومت اور ثروت کو اپنی ٹھوکریں میں رکھتے تھے- حضرتِ شرف ملت نے ان کی سیرت کی بڑی سچی ترجمانی اپنے اس شعر میں فرمائی_

               درہم و دینار میں رغبت انہیں تھی ہی نہیں
              اس فقیرے بے ریا کی دل کی دولت اور تھی

   کوئی حاکم ہو، کوئی وزیر یا حکومت کا نمائندہ ہو، نقیب برکاتیت حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان اس سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے اور قوم کے لیے جائز مطالبہ فرماتے- حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان کے اندر تحریر و تصنیف کی بے پناہ صلاحیتیں تھیں لیکن تبلیغ اور تنظیمی کاموں میں وقت نہ دیا لیکن جو بھی لکھا وہ ایسا جو اہل علم کو ان کی عالمانہ اور عابدانہ شان کا معترف کراتا ہے- فیض تنبیہ، نئی روشنی، مقدس خاتون، خطبہ صدارت آپ کی قلمی اور فکری یادگار ہیں_
    حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان ایک بلند مرتبہ شاعر بھی تھے- شاعری میں آپ کے استاد حضرت احسن مارہروی تھے حضور سید العلما کا تخلص سید مارہروی تھا- مشہور صحافی جلالت علی مہندی نے حضور سید العلما کے اس شعر پر کہا کہ ان کا یہ شعر کئی بڑے شاعروں کے قلم پر بھاری ہے وہ شعر یہ ہے_

            جمال  لیلہ   محمل    نہ  تھا   اتنا    گراں    مایہ
            کہ بازی اس پہ لگتی قیس کے ٹوٹے ہوئے دل کی

حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان کے یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں_

                 مانگ لیتے ہیں کبھی سوزن مژگاں ان سے
                 ڈال   کر   تار   نگاہ   زخم   سیا کرتے ہیں

حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان جب نعت و منقبت کے میدان کی طرف رخ فرماتے ہیں تو ایمان اور عقیدے کے پھول ان کے چاہنے والوں کے دل میں کھل اٹھتے ہیں فرماتے ہیں حضور سید العلما_

       کسی کی جے وجے ہم کیوں پکاریں کیا غرض ہم کو
       ہمیں   کافی    ہے   سید     اپنا    نعرہ   یارسول الله
                                ……………………..
                 میری جاں پہ قبضہ ہے اچھے میاں کا
                 میرے دل کے مختار  اچھے میاں  ہیں
                                 ………..…………….
                   ہے  خاک  مدینہ  دوا  ہر مرض کی
                   مجھے اس میں بوئے شفا آرہی  ہے

حضور سید العلما سند الحکما حضرت سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری برکاتی علیہ الرحمتہ والرضوان کو ان کے نانا جان حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے دین کی تبلیغ کا یہ انعام عطا فرمایا کہ جب آپ حج کو تشریف لے گیے تو ٣٣/دن اپنے آقا صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے روضے پر رات دن حاضر رہے بارگاہِ رسالت مآب صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم میں دعائے سیفی بشرط کبیر پڑھی حضور احسن العلما علیہ الرحمتہ والرضوان نے اپنے اس شعر میں اس کا اظہار فرمایا_

     پڑھی حرزیمانی بیٹھ کر تینتیس دن آقا کے روضے پر
     ادا   کرکے   یہ   اپنے   شیخ   کی  سنت   کو  آئے  ہیں

ان کے شیخ اور نانا جان مجدد برکاتیت حضرت سید شاہ اسماعیل حسن المعروف شاہ جی میاں رحمتہ الله تعالیٰ علیہ بھی سرکارِ دوعالم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے روضے پر یہ عمل پڑھ کر آئے تھے حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان مذہب و مسلک کی حفاظت کے حوالے سے بہت سخت رویہ رکھتے۔حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان نے رہتی زندگی تک کوئی سمجھوتہ دین و سنیت سے نہیں کیا جب حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان کے بیٹے حضرت نظمی میاں علیہ الرحمتہ والرضوان جامعہ ملیہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تب حضور سید العلما نے ان کو ایک خط کے ذریعے جو نصیحت اور تبلیغ اپنے لختِ جگر کو کی اس کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ برکاتیوں کے لیے ایمانی نسخہ ہے_
          ،،دین و مذہب کے مقابلے میں میں نے تمہیں پختہ کردیا ہے تم نے برسوں میرے ساتھ رہ کر تبلیغی، دینی، مذہبی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں وہ عقائد و اصول جو خانقاہ برکاتیہ کے بزرگوں سے مجھے امانت میں ملے میں نے تمہارے حوصلے اور ضرورت کے لائق اچھی طرح تمہیں بتا دیے اس معاملے میں سنو سب کی اور رہو اپنے گھر کی تعلیم پر- یہ سب اس لیے لکھ رہا ہوں کہ تم پہلی بار گھر سے باہر نکلے ہو اور باہر طرح طرح کی آب و ہوا ہے مگر تم اپنی خانقاہی تربیت ہرگز نہ بھولنا تمہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ تم کو ہم نے یہ تربیت دی ہے کہ دین و مذہب کے معاملے میں کسی رشتے کی کوئی اہمیت نہیں اصل رشتہ اپنے آقا مدنی تاجدار حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی غلامی کا ہے- بدن کا کوئی حصہ اگر سڑ جائے تو میں کاٹ کر کچرے دان میں ڈال دوں گا اور یہ نہ سوچوں گا کہ خدا نخواستہ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے- بس! اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا ہے،،   _
حضور سید العلما علیہ الرحمتہ والرضوان کا یہ خط صرف ایک بیٹے کو باپ کا خط نہیں بلکہ تمام چاہنے والوں اور سلسلے والوں کے لیے بھی تربیت کا سنہرہ باب ہے جو ہر شخص کی رہنمائی کرے گا- حضور سید العلما سند الحکما حضرت سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری برکاتی علیہ الرحمتہ والرضوان آخری عمر میں نیپال تشریف لے گیے جہاں بہت سے خاندان سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں داخل ہوئے- کئی لوگ آپ کے ہاتھ پر اسلام لائے- آپ کو خانوادہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے قدیم و جدید تمام سلسلوں کے ساتھ تمام ذکر، ورد، اشغال اور قرآن مجید کی قرآت اور حدیث روایات کی سندوں اور خاندانی معمولات کی دعاؤں کی اجازت اور بیعت و خلافت اپنے نانا حضرت اسماعیل حسن المعروف شاہ جی میاں رحمتہ الله تعالیٰ علیہ سے تھی- حضور تاج العلما سے بھی خلافت حاصل تھی- ان کے علاوہ سید شاہ مہدی حسن صاحب اور حضرتِ شاہ ارتضیٰ حسین پیر میاں صاحب نے بھی خلافت و اجازت دے کر اپنا وصی اور جانشین فرمایا-
     ١٠/١١جمادی الثانی ١٣٩٤/ ہجری کی درمیانی رات ١١/ بج کر ٤٠/ منٹ پر ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اس ختم ہو جانے والی دنیا سے ہمیشہ باقی رہنے والے جہاں کی طرف کوچ فرمایا- مارہرہ مطہرہ میں اپنے نانا اور مرشد حضرت سید شاہ اسماعیل حسن المعروف شاہ جی میاں رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کے روضے میں دفن ہوئے- حضور سید العلما سند الحکما حضرت سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری برکاتی علیہ الرحمتہ والرضوان کے وصال کے بعد آپ کے فرزند اکبر سید ملت حضرت سید شاہ آلِ رسول حسنین نظمی میاں رحمتہ الله تعالیٰ علیہ نے آپ کی مسند کو رونق بخشی- حضور سید العلما سند الحکما حضرتِ سید شاہ آلِ مصطفٰی سید میاں قادری برکاتی علیہ الرحمتہ والرضوان کے خلفا کی فہرست بڑی طویل ہے یہاں چند خلفائے کرام کا ذکر کیا جاتاہے_
       * سید شاہ آلِ رسول حسین میں نظمی علیہ الرحمہ 
       * شرف ملت حضرتِ سید محمد اشرف قادری برکاتی 
       * تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان قادری ازہری علیہ الرحمہ 
       * حضرتِ مولانا صوفی سخاوت علی
       * حضرتِ مولانا غلام عبد القادر علوی براؤن شریف

                * حضرتِ مولانا غلام عبد القادر کھتری 

___کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت، یوپی___
         __ iftikharahmadquadri@gmail.com__



Source link

Exit mobile version