Site icon Islamicus

پیغام کربلا: شہادت امام حسین ،اعلان حق کا استعارہ ہے



محبت رسول خدا کی محبت ہے اور اہل بیت رسول کی محبت رسول کی محبت ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا: جس نے حسن حسین سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی ۔ اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا ، اس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا، اس نے اللہ سے بغض رکھا اور جس نے اللہ سے بغض رکھا اس کو اللہ جہنم میں داخل کرے گا۔

اس سے وہ لوگ سبق لیں جو امام عالی مقام کے قاتلوں سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ حضور اقدس علیہ السلام نے حسن و حسین کے بارے میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تو ان سے محبت فرما جومیرے لاڈلوں سے محبت کریں۔

ہمارا مذہب اہل سنت و جماعت ہے، ہم صحابہ کرام کا بھی احترام کرتے ہیں اور اہل بیت رسول سے بھی عقیدت رکھتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے اسی بات کو بڑے پیارے انداز میں یوں فرمایا ہے:

اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور
نجم ہیں اور ناو ہے عترت رسول اللہ کی
جو صحابہ کرام سے بغض رکھتے ہیں وہ بھی صحیح نہیں۔ اور جو اہل بیت سے عقیدت نہیں رکھتے وہ بھی صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں۔ صراط مستقیم اور اعتدال کی راہ یہی ہے کہ صحابہ و اہل بیت دونوں سے محبت کا رشتہ استوار رکھا جائے۔ اسی میں ایمان کی سلامتی ہے اور عاقبت کی بھلائی ۔ محبت اہل بیت کا ہرگز یہ تقاضا نہیں کہ صحابہ رسول سے بغض رکھا جائے، اور نہ ہی احترام صحابہ اور مدح صحابہ کا یہ مطلب ہے کہ آلِ رسول سے بغض رکھا جائے۔

محرم الحرام کا مہینہ بڑا بابرکت مہینہ ہے اور اس کی دسویں تاریخ یوم عاشورا کو بڑی خصوصیات حاصل ہیں۔ اور اس یادگار تاریخ کو شہادت امام حسین نے ایک اور یاد گار کا درجہ دے دیا ہے، جب یہ تاریخ آتی ہے ، اہل بیت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور شہادت امام عالی مقام کا منظر نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے، اور فضا غم ناک ہو جاتی ہے، ایسے موقع پر ہمیں تذکرئہ شہادت کی محفلیں منعقد کرنی چاہئیں۔ اس واقعہ فاجعہ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے، تاریخ کربلا کی معنویت پر غور کرتے ہوئے اپنے اندر اعلان حق کا جذبہ بیدار کرنا چاہیے اور یادگار امام کے نام پر جو خرافات ہمارے یہاں ہوتے ہیں، ان سے بچنا اور کوسوں دور رہنا چاہیے۔

شہدائے کربلا اور اہل بیت کے نام پر ایصال ثواب، فاتحہ اور صدقات پر عمل پیرا ہوکر ان محبوبانِ خدا کے فیوض و برکات سے اپنے کو مالامال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے رحمت الہٰی بھی ہماری طرف متوجہ ہوگی۔ ڈھول ، تاشہ، باجا اور دیگر خرافات میں مشغول ہونا یزیدی اور شیطانی عمل ہے، ان سے بچنا ضروری بھی ہے اور عقل کا تقاضا بھی۔

امام حسین رضی اللہ عنہ نے سجدے میں سر کٹایا، اس سے نماز کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ آج ہم حسینی ہیں تو ہمیں بھی نمازوں کی پابندی کو اپنا شعار بنانا چاہیے کہ اس میں خدا و رسول اور امام حسین و اہل بیت کی رضا و خوشنودی ہے۔ نا جائز امور میں مشغول ہوکر اس با برکت دن کی عظمتوں کو پامال کرنا نہ مومن کا شیوہ ہے نہ ہی کیسی اچھے انسان کا کام۔کہیں کہیں تو ایسا تماشا دیکھنے کو ملتا ہے کہ ادھر نماز کی جماعت کھڑی ہے اور ادھر باجا بج رہا ہے، کھیل تماشے ہو رہے ہیں۔ نمازیں چھوڑنے والا نمازوں کے وقت باجا بجا کر نماز اور مسجد کی بے حرمتی کرنے والا، نماز میں خلل ڈالنے والا ہرگز حسینی نہیں ہو سکتا۔

امام حسین کی زندگی ہمیں نماز کا درس دیتی ہے، امام حسین کی شہادت ہمیں قربانی کا سبق سکھاتی ہے۔

آیئے ہم عہد کریں کی امام حسین رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چل کر نمازوں کی پابندی کریںگے، اعلان حق کے سلسلے میں ہمیشہ پوری جرأت و بسالت کا ثبوت دیتے رہیں گے۔ اپنے دلوں کو محبت اہل بیت کا مدینہ بنائیں گے۔ اپنی آل اولاد کے دلوں میں حبِ آل رسول کا چراغ روشن کریں گے اور حامیان یزید و دشمنان اہل بیت سے قطع تعلق کو اپنا شیوہ بنائیں گے۔



Source link

Exit mobile version