وفائے عہد کی صبح طلوع ہوئی… بیت المقدس کی باغ و بہار وادیوں سے مشیت ایزدی کے تحت تین رکنی قافلہ سوئے حجاز روانہ ہوا… صحراے حرم کی پاکیزہ لیکن بے آب و گیا وادی میں پہنچا… پہاڑیوں کے سلسلے دراز تھے… حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بصیرت نے محسوس کر لیا کہ اسی وادی میں سعادتوں کی صبح طلوع ہوگی… قافلے عشاق کے اقامت پذیر ہوں گے….
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کو بنیادِ کعبہ کے قُرب میں چھوڑا… عازم بیت المقدس ہو گئے… وادی حرم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدمِ ناز سے زم زم کا شفاف و شیریں چشمہ رواں دواں ہو گیا… حیات کے غنچے کھل اُٹھے…. شرفا کے قافلے آنے لگے… عقیدتوں کی جبیں سوئے حرم جھکنے لگی… جمالِ خلیل اور جلالِ حرم سے نور پھیلنے لگا… وادیاں سیراب ہونے لگیں… محبتوں کی صبح طلوع ہوئی…
حضرت ابراہیم علیہ السلام وادیِ قدس سے ارضِ حرم میں جا بسے… حکمِ الٰہی کا پاکیزہ لمحہ آن پہنچا… چشم فلک نے ایثار کے جلوے نظارہ کرنے تھے… سعادتوں کی ایک صبح تھی… پیکرِ وَفا حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اطاعت کی جبیں خم کر دی… تسلیم و رضا کا نرالا امتحان تھا… عظیم والد حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماں بردار فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر وادی منیٰ کی راہ چل پڑے… معبودِ حقیقی کے حکم کی تعمیل ہونے والی تھی…
منیٰ کی وادیاں سراپا دید تھیں… طاعت و رضا کا نظارہ قریب تھا… حکم الٰہی سے گردنیں جھکی تھیں… ایثار کے گلشن سجے ہوئے تھے… چشم فلک حیران… فضائے منیٰ سراپا جستجو… ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لٹایا ہی گیا تھا؛ طاعت کی گردن قربان ہونے کو آمادہ تھی… کہ قربانی کی قبولیت کی ندا بلند ہوئی…
“اور ہم نے انھیں آواز دی کہ اے ابراہیم! بلاشبہہ تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا… ہم اپنے نیکوکار بندوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں… یقیناً یہ کھلی ہوئی آزمائش تھی… اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اسماعیل کے اوپر سے نثار کر دیا… اور آنے والی نسلوں میں ہم نے اس کی یادگار قائم کر دی… سلام ہو ابراہیم (جیسے مخلص دوست) پر… ” (سورۃ الصّٰفٰت، ٣٧: ١٠٤-١٠٩)
متاعِ عشق سلامت رہی… امتحان کی گھڑی تسلیم و رضا کے لالہ و گل کھلا گئی… روشنی کے ہزاروں مینار تعمیر ہوئے… امتحان کے قافلے کامیابی سے وادی حرم میں ٹھہر گئے… امتحان کے قرینے رضاے الٰہی کا نشانِ امتیاز بن گئے… حج کا رُکن قرار پائے… طاعت کا نشاں بن گئے…
صبح قیامت تک قربانیوں کی یادیں تازہ کی جاتی رہیں گی… جس سے استقامت فی الدین کا لازوال درس اہلِ ایماں کو ملتا رہے گا… ایثار کے میناروں پر عزم و یقیں کی قندیلیں فروزاں رہیں گی… آج پھر ایثار کی ضرورت ہے… آج پھر القدس پر یہودی یلغار ہے… آج پھر وادیِ حرمین میں شیاطین عہد کے عیش کدے آباد ہیں… اسیرانِ مغرب کی جبیں طاغوت کے دَر جھکی ہوئی ہے… آبروے حرم بیچنے والے دشمنانِ اسلام کے باج گزار ہیں… حرم کی پاسبانی کو ایثار کی ضرورت ہے…
اہلِ ایماں! جاگو!! چمن پر زاغوں کا تصرف ہے… گلشن کی تباہی کو ہر شاخ رہزنوں سے جھوجھ رہی ہے… ہر سال درس ایثار وادیِ منیٰ سے ملتا ہے… وفاداری کی محفلیں آراستہ ہو جاتی ہیں… اہلِ مغرب کو یہ تردد ہے کہ اسلام زندہ ہے… غیرتوں کے پیمانے لبریز ہیں… ہاں! شاہان وقت بِکے ہوئے ہیں… خونِ مسلم میں بوے وَفا باقی ہے… مادۂ غیرت زندہ ہے:
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
قربانی عزم و یقیں کا پہلا درس ہے… محبتوں کے خوگر دیوانہ وار چلے آتے ہیں… جانوں کے نذرانے بارگاہِ الٰہی میں پیش کر دیتے ہیں… غیرتوں کے تقاضے سمجھے جائیں… قربانی سے عزیمتوں کے خمیر تیار کیے جائیں… یہود و انگریز کے ظالمانہ پنجوں کو مروڑ دیا جائے.. شعارِ شرکیہ پر قدغن لگایا جائے… تا کہ وادی پاکیزہ رہے اور گلشن مشک بار… اسلاف نے اسی کا دَرس دیا… باخبر رہیں… رہِ اسلاف پر چلتے رہیں… ان شاء اللہ! بے راہ نہیں ہوں گے… اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے