Site icon Islamicus

حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ حیات و تعلیمات (قسط اول)



سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کی ذات با برکات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔اگر کہا جائے کہ وہ سر زمین ہند کی کلاہ افتخار کے سب سے زریں نگینے تھے تو بے جا نہ ہوگا۔ان کی شخصیت سرزمین ہند کے لیے ایک بڑی نعمت تھی۔ ہندستان کی تاریخ اورثقافت پر انھوں نے انمٹ نقوش چھوڑے اور انھوں نے ہندستان میں کئی ایسے کام کیے جو آج بھی ان کی یادگار ہیں مثال کے طور پرانھوں نے ہندستان میں صوفیہ کے چشتیہ سلسلے کی بنیاد رکھی۔ اس سلسلے نے ہندستان کے اندر گنگا جمنی تہذیب قائم کی اور بقائے باہم کی ہندستانی روایت کوفروغ دیا۔

سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا اصل نام معین الدین حسن اور والد ماجد کا نام غیاث الدین حسن تھا۔ وہ ایران کے ایک شہر سجستان یا سیستان میں 537ہجری مطابق1143 میں پیدا ہوئے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی عمر ابھی صرف پندرہ سال کی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔والد کی طرف سے میراث میں ایک باغ اور پن چکی ملی۔ حضرت اس باغ کی نگرانی کرتے اور پن چکی چلاتے، وہی ذریعہ معاش تھا، لیکن حضرت کو دست قدرت نے باغ کی باغبانی کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کی گلہ بانی کے لئے بنایا تھا،اس لیے جلد ہی ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ حضرت اپنا سارا مال و اسباب اور اثاثہ فروخت کرکے حصول علم کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ سجستان سے نکل کر حضرت پہلے بخارا اور سمرقند گئے جہاں قرآن پاک حفظ کیا۔ اس کے بعد علوم ظاہری کی تحصیل میں لگ گئے۔

ظاہری تعلیم کی تکمیل کے بعد حضرت نے خواجہ عثمان ہرونی کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی تھی، خواجہ عثمان بڑے پائے کے بزرگ تھے اور نیشاپور کے قریب ایک قصبہ ہرون ہے وہاں کے رہنے والے تھے۔ 

حضرت خواجہ اپنے مرشد خواجہ عثمان ہرونی کی خدمت میں بہت عرصہ تک رہے۔ بعض لوگوں نے بیس سال لکھا ہے اور بعض نے ڈھائی سال۔ اس عرصہ میں حضرت خواجہ سفر و حضر میں ہر وقت اپنے مرشد کے ہمراہ رہتے، مرشد کی خدمت کرتے، ان کا سامان، بستر اور دوسری ضرورت کی چیزیں اپنے سر پر لے کر چلتے تھے۔انھوں نے اپنے مرشد کے ہمراہ بھی بہت سے سفر کیے اور اکیلے بھی کیے۔ان کے اسفار میں خاص طور پر سیوستان، دمشق، اوش، بدخشاں، بغداد، مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے سفر کاذکر ملتا ہے۔انھوں نے ان مقامات پر مختلف بزرگوں سے بھی فیض بھی حاصل کیااور ان علاقوں کے باشندوں کو خود بھی فیض پہنچایا۔

حضرت خواجہ جب مدینہ طیبہ پہنچے تو وہیں ان کو خواب میں ہندوستان جانے کا حکم ہوا۔ اس کے بعد ان کے مرشد حضرت خواجہ عثمان ہرونی نے ان کو خلافت عطا فرما ئی۔ خلافت دیتے وقت ان کو خرقہ عطا کیا اور ان کے سر پر چار ترکی ٹوپی پہنائی۔ اس کے ساتھ ایک عصا، لکڑی کی کھڑاؤں اور مصلیٰ دیا اور فرمایا کہ ان کو اپنے پاس رکھنا اور جس کو ان کا اہل پاؤ اس کو دینا اور میں نے جو نصیحتیں کی ہیں اور عمل بتائے ہیں ان کو تاحیات کرتے رہنا۔

حضرت خواجہ غریب نوازاپنے مرشد خرقہ خلافت لے کر عالم اسلام کی سیاحت کرتے ہوئے ہندستان پہنچے۔ بعض تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ مدینہ سے ہی چالیس ہمراہیوں کے ساتھ اجمیر کے لئے روانہ ہو گئے۔ پہلے لاہور میں قیام کیا۔ پھرملتان گئے اور وہاں سے واپس آکردہلی ہوتے ہوئے اجمیر میں آباد ہو گئے۔

حضرت خواجہ کی تشریف آوری کے وقت اجمیر میں پرتھوی راج چوہان کی حکومت تھی۔ غالباً حضرت خواجہ کے بڑھتے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس نے اور دربار کے بعض دوسرے لوگوں نے حضرت خواجہ کو پریشان کرنا چاہا۔ لیکن حضرت خواجہ کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔اجمیر میں بعض جوگیوں سے بھی حضرت خواجہ کا مقابلے ہوالیکن فضل الہی سے آپ ان میں بھی غالب رہے۔اس زمانے کے ایک مشہورجوگی جے پال کاذکر تذکرہ نگاروں نے خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ جے پال سے بڑے بڑے معرکے ہوئے اور آخر اس کو یقین ہو گیا کہ حضرت خواجہ کوئی جادوگر نہیں ہیں بلکہ خدا کی طاقت ہے جو حضرت خواجہ کے ساتھ شامل ہے اور اسی طاقت کی وجہ سے وہ سب پر غالب آ جاتے ہیں۔ جے پال جوگی نے اسلام قبول کر لیا اور اس کا اسلامی نام عبداللہ رکھا گیا۔

 اجمیر میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد حضرت خواجہ سدا وہیں رہے صرف دو مرتبہ دہلی تشریف لائے اس کے عالوہ کہیں اور کا سفر نہیں کیا۔حضرت کے سفر دہلی کی تفصیل اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ خواجہ قطب الدین نے خدمت عالیہ میں مکتوب روانہ کیا جس میں شوق زیارت اور تمنائے قدمبوسی کا اظہار فرمایا اور حاضری کی اجازت طلب کرتے ہوئے لکھا ”میں آپ کی زیارت کے لئے خدمت اقدس میں حاضر ہونا چاہتا ہوں، اگر ارشاد ہو تو حضور کی قدم بوسی کا شرف حاصل کروں۔ جواب میں حضرت نے فرمایا کہ دہلی کا کارولایت تمہارے سپرد ہے۔ تم وہیں رہو۔ کچھ دن میں ہم خود دہلی آئیں گے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد حضرت خواجہ خود دہلی تشریف لائے اور اپنے چہیتے مرید کی خانقاہ میں قیام فرمایا۔ اس سفر میں بابا فریدالدین گنج شکر نے بھی آپ کی زیارت کی اور آپ کے ذریعہ ہی ان کو تکمیل ولایت کا مژدہ ملا اور اسی سفر میں حضرت خواجہ کو اپنے شیخ طریقت خواجہ عثمان ہارونی کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔

اس سفر میں حضرت کی ملاقات شیخ الاسلام نجم الدین صغری سے ہوئی۔ وہ حضرت کے بڑے عقیدت مند تھے لیکن خواجہ قطب الدین کے ذوق سماع کو ناپسند کرتے تھے۔ انہوں نے حضرت خواجہ سے درخواست کی کہ اپنے مرید کو اپنے ساتھ اجمیر لے جائیں۔اس لیے وہ حضرت خواجہ قطب الدین کو لے کر اجمیر کی روانہ ہوئے لیکن دہلی سے خواجہ قطب الدین کے عقیدت مندوں کی ایک بڑی جماعت بھی ساتھ ہو لی۔ حضرت خواجہ نے ان کے جذبہ عقیدت کا احترام کرتے ہوئے ایک منزل جانے کے بعد خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو واپس دہلی بھیج دیا۔

 حضرت خواجہ غریب نواز کے دوسرے سفر کا سبب یہ ہے کہ ایک کاشتکار نے خواجہ غریب نواز سے عرض کیا کہ حاکم نے میرے کھیت کی پیداوار ضبط کر لی ہے اور کہتا ہے کہ جب تک شاہی فرمان نہیں لاؤ گے اس میں سے کچھ نہ پا سکو گے۔ لہٰذا حضرت کی امداد چاہتا ہوں۔ میری روزی کا وسیلہ صرف یہی کھیت ہے۔ آپ قطب صاحب کو لکھ دیں وہ بادشاہ سے فرمان دلا دیں گے۔ اس درخواست پر حضرت خواجہ کسی کو مطلع کئے بغیر کسان کو لے کر دہلی پہنچے۔ دہلی میں جب خواجہ قطب الدین نے تشریف آوری کی وجہ معلوم کی تو بتایا کہ اس کسان کے کام سے آیا ہوں۔ خواجہ قطب الدین نے عرض کیا کہ حضور کا کوئی خادم بھی سلطان سے فرمان حاصل کر سکتا تھا، حضور کو زحمت سفر اٹھانے کی کیا ضرروت تھی؟ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ یہ ٹھیک ہے۔ مگر مسلمان جب ذلت اور غربت میں ہوتا ہے تو خدا کی رحمت سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ جب یہ شخص میرے پاس آیا تو بہت رنجیدہ تھا۔ مجھے اشارہ غیبی ملا کہ کسی کے رنج میں شریک ہونا بھی عین بندگی ہے اس لیے ادائے بندگی کے لیے میں خود حاضر ہوا ہوں۔

خواجہ قطب الدین سلطان التمش کے پاس گئے اور اس کسان کے لیے شاہی فرمان حاصل کیا۔ ساتھ حضرت خواجہ قطب الدین کے صاحبزادوں کے لیے بھی ایک قطعہ ارضی کا فرمان حاصل کیا۔ چنانچہ وہ اس زمین پر خود کاشتکاری کر کے نہایت سادہ زندگی گذارتے تھے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے دوسرے سفر کی وجہ یہی لکھی ہے کہ حضرت کی اولاد کا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے حضرت دوسری مرتبہ دہلی تشریف لائے تھے۔

حضرت خواجہ کو نائب الرسول فی الہند یا وارث النبی فی الہند کہا جاتا ہے۔ اس لقب سے موسوم ہونے کی اصل وجہ یہی ہے کہ انسانیت کی جو عظیم خدمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا میں انجام دی، اسی پیغام کو حضرت خواجہ نے ہندوستان کی سرزمین میں عام کیا اور بندگان خدا کو مختلف قسم کی غلامیوں کی زنجیروں سے آزاد کر کے خدائے واحد کی عبادت اور فرمانبرداری کا درس دیا۔ اس پیغام کو ہندوستان میں عام کرنے کے لیے مقامی زبان کی ضرورت تھی۔ وہ حضرت خواجہ نے ملتان میں رہ کر سیکھی اور لوگوں کو ان کی اپنی زبان میں خدا کا پیغام سنایا۔

ملک کے عوام نے حضرت خواجہ کی دعوت پر لبیک کہا اور بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام کا پیغام قبول کر لیا۔ حضرت کی تعلیمات نے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ہدایت کی راہ دکھائی، راجستھان کے علاقے میں اجمیر اور دہلی کے درمیان بڑی تعداد میں ہندی الاصل مسلمان اقوام موجود ہیں، جیسے میواتی، کاٹھات، مہرات اور چیتا وغیرہ۔ یہ اقوام یقینا حضرت خواجہ کے اثرات سے ہی مسلمان ہوئیں۔

ہندوستان میں اشاعت اسلام کی تاریخ مدون نہیں ہے اور اب شاید مراجع کی کمی کے باعث اس کی مستند تاریخ مرتب ہونا بھی مشکل ہے۔ اس لئے اشاعت اسلام کے سلسلے میں حضرت خواجہ کی مساعی مشکور پورے طور پر مورخین کے سامنے نہیں آ سکتیں۔ مختلف اندراجات اور بعض قرائنی شہادت سے ان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

حضرت خواجہ کے اولین سوانح نگار جمالی نے سیرالعارفین میں خواجہ کی تبلیغ اسلام کے بارے میں لکھا ہے:

”اس علاقے کے اکثر نامور لوگ انہی زبدۃالابرار کی برکت سے ایمان سے مشرف ہوئے اور بہت سے جو ایمان نہیں لائے انہوں نے بھی بے حد و حساب نذر و فتوح آں جناب کی خدمت میں پیش کیں اور وہ ابھی تک اسی طرح معتقدمین اور ہر سال آتے ہیں اور آستانہ عظیم القدر اور آسمانی مشیخت کے اس بدر کامل کے سامنے سر نیاز خم کرتے ہیں“۔

دارا شکوہ نے سفینتہ الاولیاء میں لکھا ہے:

”ان کی آمد سے بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے“۔

سیرالاولیاء کے مصنف امیر خورد کرمانی نے اجمیر میں حضرت خواجہ کے فیوض و برکات بچشم خود دیکھے ہوں۔ چونکہ حضرت خواجہ کی وفات کے بعد سو سال سے بھی کم کے حالات کا مشاہدہ اس نے خود کیا ہے۔ اس نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ خواجہ اجمیری کے اثرات سے وہاں شرک کی ظلمت نور ایمان کی ضیاء باریوں سے چھٹ گئی۔ لکھتے ہیں:

”حضرت خواجہ کی دوسری کرامت یہ ہے کہ آپ کے آنے سے پہلے ہندوستان میں شرک و بت پرستی کا راج تھا اور ہند کا ہر ایک سرکش ”انا ربکم الاعلی“ (میں تمہارا سب سے بڑا خدا ہوں) کا دعویٰ کرتا تھا اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھتا تھا اور وہ سب پتھر و ڈھیلے، درخت، چوپایوں اور گائے اور اس کے گوبر کو سجدہ کیا کرتے تھے اور کفر کی تاریکی سے ان کے دلوں کے تالے اور مضبوط ہو رہے تھے۔ حضرت خواجہ کی ہندوستان آمد کا یہ اثر ہوا کہ صلیب و کلیسا کی محراب و منبر اور مشرکانہ نعروں کی جگہ اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے لگیں“۔

خواجہ اجمیری کی تبلیغی خدمات کے سلسلہ میں ایک واقعہ یہ مشہور ہے کہ بیکانیر کے حکمراں بیربل اور گڈوبل نے بھی ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ راجہ بیربل کا اسلامی نام باری بخش رکھا گیا اور چونکہ یہ اپنے علاقہ کا حکمران تھا اس لئے اس پورے علاقے مین ان کے اثرات مرتب ہوئے۔ ان کے اخلاف ہنوز اپنا انتساب حضرت خواجہ کی طرف کرتے ہیں۔

پروفیسر آرنلڈ نے بھی حضرت خواجہ کی تبلیغی مساعی کے سلسلے میں لکھا ہے:

”خواجہ اجمیر تشریف لائے جہاں کا راجہ ہندو تھا اور ملک میں ہر طرف بت پرستی پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں پہنچنے کے بعد جس ہندو کو آپ نے سب سے پہلے مسلمان کیا وہ راجہ کا جوگی گرو تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے مریدوں کی ایک جماعت آپ کے پاس جمع ہو گئی جنہوں نے آپ کی تعلیم و تلقین سے بت پرستی چھوڑ کر اسلام اختیار کر لیا۔ آپ کی شہرت سن کر بہت سے ہندو اجمیر آئے اور آپ کی ترغیب سے مسلمان ہو گئے۔ روایت ہے کہ جب اجمیر جاتے ہوئے دہلی کے مقام پر ٹھہرے تو وہاں آپ کے ہاتھ پر سات سو ہندوؤں نے اسلام قبول کیا۔

سیرالاقطاب میں اس طرح کے بعض واقعات کے ساتھ شادی دیونام کے ایک دیو یا مذہبی پیشوا کے مسلمان ہونے کا ذکر ہے۔ شادی دیو کسی مندر کا پجاری تھا۔ بعض لوگوں کے کہنے پر وہ حضرت خواجہ سے مقابلہ کرنے کے لئے آیا۔ لیکن حضرت خواجہ کا دیدار کرتے مسلمان ہو گیا۔ شادی دیو حضرت خواجہ کی خدمات کے سلسلے میں سیرالاولیاء میں امیر خورد کرمانی نے لکھا ہے حضرت خواجہ معین الدین جو آفتاب اہل یقین ہیں ان کے قدم مبارک جب اس دیار میں پہنچے تو اس کی تاریکی اسلام کے نور سے روشن اور منور ہو گئی۔

ابوالفضل نے آئین اکبری میں لکھا ہے:

”حضرت خواجہ اجمیر میں مقیم ہو گئے اور رشد و ہدایت کے چراغ جلائے۔ ان کی وجہ سے گروہ کے گروہ ان سے مستفید ہوئے۔  “

حضرت خواجہ اجمیری کی وفات اجمیر میں ہوئی اور سرزمیں کی آغوش یہ ماہ کامل ہمیشہ کے لیے پردے میں چلے گئے۔حضرت کی تاریخ وفات ایک روایت کے مطابق 6رجب 627 ھ مطابق1236 ء ہے۔

حضرت خواجہ نے دو شادیاں کی۔ پہلی شادی امتہ اللہ سے کی جن کے بارے میں اکثر مورخین نے لکھا ہے کہ وہ کسی راجہ کی بیٹی تھیں اور انہوں نے حضرت خواجہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا۔ دوسری شادی سید وجیہہ الدین مشہدی کی دختر عصمت اللہ بی بی سے ہوئی۔ ان دونوں سے حضرت کے تین بیٹے اور ایک بیٹی  پیداہوئیں۔ بیٹی حافظہ جمال جو خود نہایت پارسا اور عبادت گذار ولیہ تھیں وہ امتہ اللہ کے بطن سے پیدا ہوئیں اور تینوں بیٹے بی بی عصمت اللہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔

حضرت خواجہ کی صاحبزادی بی بی حافظہ جمال نہایت متقی پرہیزگار اور ولیہ کاملہ تھیں۔ حضرت خواجہ کی زیر نگرانی تربیت حاصل کی۔ علوم ظاہری و باطنی سے آراستہ ہوئیں اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ صائم الدہر اور قائم اللیل تھیں۔ عورتوں کی تعلیم و تربیت میں آپ نے بڑی خدمات انجام دیں۔ شیخ حمیدالدین ناگوری کے صاحبزادے شیخ رضی الدین سے آپ کا عقد مبارک ہوا تھا۔ دو بچے بھی تولد ہوئے۔ لیکن کم سنی میں ہی فوت ہو گئے۔ بی بی فاطمہ کا وصال اجمیر میں ہوا۔ حضرت خواجہ کے روضہ کے شمال مشرق کے کونہ پر آپ کا مزار ہے۔

حضرت شیخ قطب الدین بختیار کاکی حضرت خواجہ کے سب سے بڑے خلیفہ تھے اور آپ کے ذریعہ ہی چشتیہ کو ہندوستان میں فروغ حاصل ہوا۔ آپ کے خلیفہ بابا فریدالدین گنج شکر ہوئے اور ان سے اس سلسلے کی دو شاخیں نکلیں، چشتیہ صابریہ اور چشتیہ نظامیہ۔پہلی شاخ میں شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور بعد میں علمائے دیوبند جیسے عظیم لوگ ہوئے اور دوسری شاخ سے حضرت نظام الدین اولیاء اور امیر خسرو جیسی شخصیات کے علاوہ بعد میں علمائے بریلی وابستہ رہیں۔

ان کے علاوہ حضرت خواجہ کے دوسرے خلفاء  کی تعداد چالیس ے زیادہ ہے تاہم ان میں حضرت کے بیٹے خواجہ فخرالدین اور بیٹی بی بی فاطمہ جمال کے علاوہ شیخ حمیدالدین ناگوری، شیخ وجیہہ الدین، خواجہ برہان الدین، شیخ محمد ترک نار نولی، خواجہ عبداللہ بیابانی، شیخ صدرالدین وغیرہ متعدد اہم نام ہیں۔

حضرت خواجہ انتہائی خلیق، شفیق، نرم دل اور رقیق القلب انسان تھے۔ آپ کو تمام انسانیت کا غم ہر وقت طاری رہتا تھا۔ بندگان خدا کی اصلاح و تربیت کے لئے کوشش کرتے رہتے تھے۔ آپ نے چشتیہ سلسلہ کی بنیاد اسی لئے رکھی کہ اس طرح لوگوں کی اصلاح اور ہدایت کے لئے ایک مستقل سلسلہ قائم ہو جائے۔ آپ کو اس سلسلہ کی اتنی فکر تھی کہ ہندستان آنے سے قبل خانہ کعبہ میں اس کو مستقل باقی رکھنے کے لئے دعائیں مانگا کرتے تھے۔

 حضرت خواجہ فقیر منش انسان تھے۔ ہمیشہ سادہ غذا لیتے تھے اور جب کھاتے تو بہت تھوڑا سا تناول فرماتے۔ اکثر روزے رکھتے تھے۔ افطار میں بہت معمولی غذا لیتے، لباس بھی بہت سادہ استعمال کرتے تھے۔ عموماً پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے اور اگر کوئی کپڑا پھٹ جاتا تو جس رنگ کا دوسرا کپڑا مل جاتا اسی کا پیوند لگا لیا کرتے۔ ہم رنگ کپڑے کی تلاش کی زحمت میں مبتلا نہ ہوتے۔ یہ دراصل حضرت خواجہ کی بے نفسی اور سادگی کا اثر تھا۔ انہوں نے دنیا کو ترک نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو دنیا کی اصلاح میں لگا دیا تھا۔ ان کا پیغام تھا غذا اور لباس انسانی ضرورت ہیں، ان کو صرف ضرورت ہی سمجھنا چاہئے۔ اس کے مقابلے میں انسانیت کی تعمیر، اپنے آپ کو اچھے اخلاق سے آراستہ کرنا اور بری صفات کو دور کرنا انسانی زندگی کا مقصد ہے۔ اس لئے ضرورت پوری کرنے کے لئے اتنی کوشش کریں جتنی ضرورت ہے اور پھر زندگی کی ہر کوشش کو مقصد زندگی کے حصول میں لگا دیں۔ چونکہ ضرورت وقتی چیز ہے جس طرح بھی پوری ہو جائے گی کام چل جائے گا۔ لیکن اگر مقصد زندگی حاصل نہ ہو سکا تو مرنے کے بعد ابدالاباد کی زندگی ناکام و مراد ہو جائے گی۔ حضرت خواجہ کا پیغام بھی یہی تھا۔ وہ لباس اور غذا، مکان اور محل، دوستی اور دشمنی اور تعریف و تنقید سے بلند ہو کر خود بھی مقصد زندگی کے حصول میں لگے ہوئے تھے اور لوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔

تصوف کی تاریخ میں بے شمار عظیم شخصیات پیدا ہوئیں اور تمام اسلامی دنیا میں تصوف کے اساطین کی اپنی اپنی شان رہی۔ لیکن حضرت خواجہ کا ان سب میں ایک خصوصی امتیاز ہے۔ حضرت خواجہ ایک ایسے وقت میں ہندوستان تشریف لائے جب اس ملک میں مسلمان برائے نام تھے اور ایک ایسے مقام پر فروکش ہوئے جو اس وقت شمالی ہندوستان کا مرکز تھا اور وہاں رہ کر امن و انسانیت، بھائی چارہ اور اخوت کا پیغام دیا۔ اونچ نیچ اور طبقاتی نظام میں جکڑے ہوئے ہندوستان کو برابری کا درس دیا اور بتایا کہ انسان اپنی پیدائش سے چھوٹا بڑا نہیں ہوتا بلکہ عمل سے چھوٹا بڑا ہوتا ہے۔ سارے انسان برابر ہیں اور سب کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔

حضرت خواجہ نے انسان کو اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی سے آزاد کرکے اپنے مالک کا غلام بننے کا پیغام دیا۔ خدا اور بندے کے درمیان سے انسانوں کے واسطے ختم کر کے ہر انسان کا تعلق براہ راست اس کے مالک سے قائم کرنے کی دعوت دی۔

چونکہ حضرت خواجہ نے یہ عظیم پیغام اس سرزمین میں پہلی مرتبہ سنایا اس لئے امت نے ان کو بڑے عظیم خطابات دئیے۔ جیسے نائب الرسول فی الہند اور وارث النبی فی الہند وغیرہ۔ حضرت خواجہ کے اجل خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے ملک المشائخ، سلطان السالکین، منہاج المتقین، قطب الاولیاء، شمس الفقراء، ختم المہتدین جیسے القاب سے یاد کیا۔  شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ”سر حلقہ مشائخ کبار، شہزادہ دارا شکوہ نے زبدہ مشائخ اجل، قدوہئ اولیائے اکمل لکھا ہے۔

حضرت خواجہ کے یہ القاب لوگوں کی طرف سے صرف اظہار عقیدت کا مظہر ہیں ورنہ ان کا مقام ہر لقب اور ہر خطاب سے بلند ہے۔ ان کی شان عظیم اور نرالی ہے۔ ان کے آستانے پر صدیوں سے امیر و غریب، راجہ اور رنک، ہندو اور مسلمان سبھی جاتے ہیں اور عقیدت کی جبین نیاز خم کرتے ہیں۔ سال کے ۵۶۳ دن عموماً اور عرس کے موقع پر درگاہ میں زائرین کا جم غفیر رہتا ہے جو حضرت خواجہ سے لوگوں کی عقیدت اور شیفتگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کوئی عقیدت بلاسبب نہیں ہوتی۔ یقینا اس کے پیچھے حضرت خواجہ کا جذبہ دل اور مخلوق خدا کی فیض رسانی اور ان کے لئے ان کی تڑپ نے ہی لوگوں کے دلوں میں وہ والہانہ عقیدت کا جذبہ پیدا کیا کہ آج کم و بیش آٹھ سو سال بعد بھی لوگ اس آستانے سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں اور اس دروازے پر حاضری دینا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔

حضرت خواجہ کے آستانے پر جس طرح عوام جاتے ہیں، سلاطین و امراء کی عقیدت بھی ان کے ساتھ کم نہ تھی ہر زمانے میں بادشاہان وقت نے حضرت خواجہ سے اپنی وابستگی اور عقیدت کا اظہار کیا۔ سلطان شمس الدین التمش جو حضرت خواجہ کے ہم عصر تھے، اس کو بھی حضرت خواجہ سے بڑی عقیدت تھی اور حضرت خواجہ کے خلیفہ اجل خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے اپنے تعلق کا اظہار مختلف مواقع پر کرتے رہتے تھے۔ مختلف تذکروں میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ مشائخ چشت کے ساتھ ان کے اس تعلق کی وجہ سے ہی حضرت خواجہ بھی ان کو منظور نظر رکھتے تھے۔ خزینتہ الاصفیاء میں لکھا ہے کہ ”سلطان شمس الدین التمش حضرت خواجہ معین الدین سجزی کے محبوب اور منظور نظر تھے“۔

مالوہ کے سلطان محمود خلجی نے راجپوتوں کے خلاف فوج کشی کی تو پہلے حضرت خواجہ کے مزار پہ حاضری دی۔ اس کے بعد میدان جنگ کا رخ کیا۔اس جنگ میں کامیابی کے بعدبھی مزارپر حاضری دی اور اظہار عقیدت کے لیے روضہ کے قریب ایک مسجد بنوائی جو اب صندل خانہ کے نام سے مشہور ہے۔

شہنشاہ اکبر کو حضرت خواجہ سے بڑی عقیدت تھی۔ شہزادہ سلیم کی پیدائش کی خوشی میں آگرہ سے اجمیر تک پیدل سفر کیا۔ سارے راستہ خوب خیرات کی اور اشرفیاں لٹائیں۔ اجمیر میں بھی شاہانہ طریقہ پر خیرات تقسیم کرائی۔ ایک مسجد بنوائی اور ضروریات کے لئے کئی دیگر عمارتیں بھی تعمیر کروائیں۔ مراد کی پیدائش پر بھی اکبر نے اجمیر شریف کی زیارت کی۔ اور بھی مختلف مواقع پر اس نے درگاہ میں حاضری دی۔ بلکہ جب بھی اکبر کو اجمیر جانے کا موقعہمل جاتا وہ ضرور جاتا۔ ابوالفضل نے اکبر نامہ میں اور ملا عبدالقادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں ایسے متعدد مواقع کا ذکر کیا ہے جب اکبر نے حضرت خواجہ کے دربار میں حاضری دی۔ اجمیر کی بڑی دیغ جس میں سو من چاول پک سکتے ہیں، وہ بھی اکبر نے ہی درگاہ میں چڑھائی تھی۔

جہانگیر کو بھی حضرت خواجہ سے بڑی عقیدت تھی۔ اپنے آٹھویں سال جلول میں جہانگیر خواجہ کی زیارت کے لئے اجمیر گیا۔ جہانگیر نے اپنے اس سفر کا حال خود لکھا ہے:

”دوشنبہ کے روز ۵ شوال مطابق ۶۲ شعبان کو اجمیر میں داخل ہونے کی ساعت قرار پائی۔ اس روز صبح کو میں شہر کی طرف بڑھا۔ جب قلعہ اور حضرت خواجہ بزرگ کا روضہ نظر آنے لگا تو ایک کوس پہلے ہی میں پاپیادہ ہو گیا اور راستہ کے دونوں جانب معتمدوں کو مقرر کیا کہ فقرا اور ضرورتمندوں کو روپیہ دیتے ہوئے آگے بڑھے اور جب دن کی چار گھڑیاں گذر چکی تو شہر میں داخل ہوا اور پانچویں گھڑی میں روضہ مبارک کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور پھر اپنی قیام گاہ پر واپس آیا۔ دوسرے دن میں نے حکم دیا کہ شہر کے ہر چھوٹے بڑے شخص اور ہر راہ گیر کو اچھی طرح انعام دے کر خوش کیا جائے۔

جہانگیر نے اپنے آٹھویں سال جلوس میں درگاہ کو ایک دیگ دی جو آگرہ میں بنی تھی۔ پھر اجمیر جا کر اس میں کھانا پکوایا اور ۵ ہزار لوگوں کو اس میں کھانا پکوا کر کھلوایا۔ اب یہ چھوٹی دیگ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں اسّی من چاول پک سکتے ہیں۔

شاہجہاں نے بھی حضرت خواجہ کے آستانے پر کئی بار حاضری دی۔ روضہ کے پاس سنگ مرمر کی مسجد اسی کی بنوائی ہوئی ہے۔ مسجد کا طول ۷۹ گز اور عرض ۷۲ گز ہے۔ اس میں پانچ دروازے ہیں۔ ابو طالب کلیم نے اس مصرعہ سے تاریخ نکالی تھی:

کعبہ حاجات دنیامسجد شاہجہاں

شہزادی جہاں آرا نے اپنی کتاب مونس الارواح میں لکھا ہے کہ یہ مسجد دو لاکھ چالیس ہزار روپیہ میں تعمیر ہوئی۔ خود جہاں آرا بیگم کو بھی حضرت خواجہ صاحب سے والہانہ عقیدت تھی۔ درگاہ کا بیگمی دالان اس نے ۲۵۰۱ میں بنوایا تھا۔ اس کی چھت اور ستون سنگ مرمر کے ہیں اور فرش سنگ افشاں ابری اور طلائی کا ہے۔ اس عقیدت کی بنا پر خواجگان چشت پر ایک کتاب مونس الارواح تصنیف کی۔ 

بعد کے سلاطین و حکمراں بھی حضرت خواجہ کے ساتھ ایسی عقیدت و احترام کا اظہار کرتے تھے۔ عالمگیر جو اپنے مذہبی تقشف کے لئے مشہور ہے لیکن حضرت خواجہ سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ پا پیادہ حاضری کو سعادت سمجھتا تھا۔

حضرت خواجہ کو آج بھی وہی مرکزیت حاصل ہے، آج بھی عوام اور حکمران، امیر و غریب، بڑے اور چھوٹے ہر طبقے کے لوگ لاکھوں کی تعداد میں ہر سال حضرت خواجہ کی زیارت کے لئے آتے ہیں۔

اللہ رب العزت نے حضرت خواجہ کو انسانوں کی گلہ بانی کا وہ عظیم کام سونپا تھا جس کے لئے انبیاء کرام مبعوث کئے گئے اور حضرت خواجہ کے لئے ہندستان کی سرزمین کو منتخب فرمایا۔ یہ ایک طرح سے اذن الٰہی تھا کہ وہ ایک ایسے وقت میں ہندوستان کی سرزمین میں تشریف لائے۔ جب یہاں کے لوگ اپنی حقیقت بھی بھولے ہوئے تھے اور اپنے مالک و مولیٰ کی حقیقت سے بھی نا آشنا تھے، مذہبی زندگی اندھ وشواشوں اور بدعقیدگی کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی اور دولت مند طبقہ غریبوں کا استحصال کر رہا تھا، خود ساختہ مذہبی رہنماؤں نے اپنی دنیا کی غرض سے سیدھے سادے عوام کو بے وقوف بنا رکھا تھا۔ہر انسان ایک طرف انسان سماج کی ناروا بندشوں میں جکڑا ہوا تھا۔ دوسری طرف بدعقیدگیوں کی دلدل میں اس کی روح قید تھی۔گویا انسان جسمانی اور روحانی ہر طرح کی غلامی میں بندھا ہوا تھا۔

حضرت خواجہ نے یہاں آ کر لوگوں کو جسمانی اور روحانی ہر طرح کی پاکیزگی عطا کی۔ لوگوں کو بتایا کہ انسان اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کا غلام نہیں ہے بلکہ اس مالک و مولیٰ کا بندہ ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے۔ اس لئے انسان کو اسی کے سامنے جھکنا چاہئے۔ انسان کی آزادی یہ ہے کہ وہ اس مالک کی غلامی اختیار کر لے۔ ساری کائنات اس مالک کی غلام ہے اگرانسان بھی شعوری طور پر اس کی غلامی اختیار کر لیتا ہے تو وہ اس ساری کائنات کو انسان کا خادم بنا دیتا ہے، لیکن اگر انسان اس مالک سے منہ موڑ لیتا ہے تو وہ انسان کو ہی اس کائنات کا خادم بنا دیتا ہے۔

صوفیہ کرام کی زندگی اور تعلیمات کا ایک نمایاں پہلو ان کا جذبہ خدمت خلق ہے۔ صوفیہ کے بارے میں عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ گوشہ نشین اور عزلت گزین قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ ان کو دنیا سے کوئی تعلق نہیں رہتا تھا۔ وہ مردم بے زار قسم کے افراد ہوتے تھے۔ لیکن یہ تاثر حقیقتاً درست نہیں۔ صوفیہ کرام کی مردم بے زاری اور دنیا سے دوری حقیقتاً امراء و سلاطین اور اصحاب ثروت سے دوری تھی۔ وہ دنیا کے غلاموں سے اپنے آپ کو دور رکھتے تھے۔ ورنہ جہاں تک عوام کا اور غریب و پسماندہ لوگوں کا اور ضرورتمندوں کا تعلق ہے تو ان کے لئے صوفیہ کرام کے دروازے ہمیشہ اور ہمہ وقت کھلے رہتے تھے۔ ضرورت مندوں کی حاجت براری کے لئے صوفیہ کرام ہر طرح تیار رہتے تھے۔ حتیٰ کہ سلاطین و امراء سے اتنی دوری رکھنے کے باوجود اگر کسی ضرورت مند کا سوال ہوتا تو یہ حضرات ان کے پاس بھی جاتے تھے اور کبھی کبھی بار بار جاتے تھے۔

صوفیہ کرام کی عوام سے محبت اور غریبوں سے الفت کا اصل سبب ان کی انسانیت دوستی تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ اس لئے عوام کی خدمت کو اپنے سلوک اور اپنے مذہب سے الگ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے لئے خدا تک رسائی کا ذریعہ ایک طرف ان کی ذاتی عبادت و ریاضت تھی تو دوسری طرف عوام سے محبت اور خدمت خلق اس کا ذریعہ تھی۔ وہ خود کو عوام اور مساکین کے طبقے ہی سے متعلق سمجھتے تھے اور عوام کے تمام مسائل سے براہ راست دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کی خانقاہوں میں جو بھی غریب نادار، مصیبت زدہ انسان پہنچ جاتا اس کی خبر گیری کرتے اور اس کی ضروریات کو پورا کرتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان درویشوں کو ان کی زندگی میں جو مقام حاصل تھا وہ ان کے معاصر حکمرانوں کو بھی نہیں تھا اور ان کی وفات کے بعد ان سے عوام کی جیسی عقیدت اور وابستگی ہے، اس کی مثال بہت مشکل ہے۔

صوفیہ کرام کی یہ غریب پروری اور خدمت خلق ہندوستان میں بطور خاص نمایاں نظر آتی ہے۔ اس کی مختلف وجوہات بھی ہیں جن کے ذکر کی یہاں چنداں ضرورت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صوفیہ کرام نے ہندوستان کے کثیر مذہبی معاشرہ میں ایک ایسی تہذیبی روایت کو فروغ دیا جس میں مذہب و ملت اور ذات پات کی تفریق کے بغیر ہر ایک کو یکساں مواقع فراہم ہوں، صوفیہ کرام نے خود کوشش اور محنت سے اس کا عملی نمونہ پیش کیا، معاشرے کے دبے کچلے اور کمزور افراد کے ساتھ خصوصی تعلق اور محبت کا برتاؤ کیا اور ان کی خدمت کو اپنا شیوہ بنایا۔

ہندوستان میں صوفیہ کرام کے اس رویے اور روایت کے بانی تھے حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ۔ اس لئے ان کے القاب و خطابات میں ایک مشہور خطاب ایک ”خواجہ غریب نواز ہے“ حضرت خواجہ نے عبادت و اطاعت الٰہی کو براہ راست خدمت خلق سے جوڑ دیا۔ ان کی نظر میں عبادت یہ ہے کہ بندہ اپنی رات کی تنہائی میں اپنی جبین خدا وند قدوس کی بارگاہ میں جھکا دے اور اس کے عائد کردہ فرائض کو انجام دے اور اطاعت یہ ہے کہ اپنے دن کی روشنی میں بندگان خدا کی خبر گیری کے لیے ہمہ وقت مستعد اور تیار رہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کرانسان آخرت میں کامیاب ہو سکتا ہے اور جہنم کے عذاب سے بچ سکتا ہے۔ حضرت خواجہ فرماتے تھے ”جو شخص قیامت کے عذاب سے بچنا چاہتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرے کیونکہ اللہ کے نزدیک فرمانبرداری سے بڑھ کر کوئی اور اطاعت نہیں“۔ میں نے عرض کیا ”کس قسم کی اطاعت؟“ فرمایا ”عاجزوں کی فریاد رسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اس سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں“۔

حضرت خواجہ کے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا اور حاجت مندوں کی حاجت روائی سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں۔

حضرت خواجہ نے ایک اور موقع پر اپنے پیرخواجہ عثمان ہرونی کے الفاظ نقل کیے ہیں کہ ”اگر کسی شخص میں تین خصلتیں پائی جائیں تو سمجھ لو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دوستی رکھتا ہے، سخاوت، شفقت اور تواضع۔ سخاوت دریا کی سی، شفقت سورج کی سی اور تواضع زمین کی سی“۔

ان الفاظ میں دراصل صوفیہ کرام کے عمل کا خلاصہ آ گیا ہے۔ یعنی صوفیہ وہ ہوتے ہیں جن میں دریا کی سی سخاوت ہوتی ہے۔ جو بھی اس کے پاس سیراب ہونے آتا ہے وہ اس کو سیراب کرتے ہیں، نہ ذات پوچھتے ہیں نہ عمل دیکھتے ہیں۔ ان میں سورج کی سی شفقت ہونی چاہئے یعنی بلا لحاظ مذہب و ملت اور امیر و غریب سورج کی روشنی سب کے لئے اس طرح۔ صوفیہ کرام کی برکات سے بھی سب مستفید ہو سکتے ہیں۔ صوفی میں زمین کی سی تواضع ہونی چاہئے۔ زمین پر اچھے اور برے سب طرح کے  لوگ چلتے ہیں لیکن وہ سب سے قدم برداشت کرتی ہے اور سب کا پیٹ پالتی ہے۔ اس طرح صوفی بھی ہوتا ہے وہ سب کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کرتا ہے۔ کسی جابر حکمراں کی رعونت ان کی تواضع میں اضافہ نہیں کر سکتی اور کسی کمزور اور مجبور انسان کی بے بسی ان کی تواضع کے اندر کسی کمی کا سبب نہیں بن سکتی۔

ایک اور موقع پر فرمایا کہ جس کسی نے نعمت پائی سخاوت سے پائی۔ یعنی سخاوت اور کرنا غریبوں پر خرچ کرنا حضرت خواجہ کی نظر میں نعمتیں حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔

(جاری)

ڈاکٹرمفتی محمدمشتاق تجاروی

اسسٹنٹ پروفیسر

شعبۂ اسلامک اسٹڈیز

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

muftimushtak@gmail.com

Mobile:9910702673



Source link

Exit mobile version