Site icon Islamicus

درسِ ایثار کے آئینہ دار اسلامی ماہ و سال



نئے ہجری سال 1444ھ میں عزم و یقیں کے چراغ روشن کریں

اسلام عظیم دین ہے۔ فطرت کے عین مطابق ہے۔ آسمانی مذہب ہے۔ سب سے بہتر، پسندیدہ اورچُنا ہوا دین ہے۔ اسی کی تبلیغ انبیاے کرام علیہم السلام نے کی۔ رسولانِ عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے قوموں کو اسی کی طرف بلایا۔ اسی دین کی تکمیل خاتم الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد اور نزولِ قرآن سے ہوئی۔

    تمام باطل قومیں دینِ اسلام سے خوف زدہ ہیں۔ صلیبی جنگوں کی پشت پر بھی یہی پہلو نمایاں تھا کہ: اگر اسلام غالب آگیا تو عیسائیت کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا دیگر مذاہب جو اپنی اصل شکل کھو چکے ہیں ان کا وجود باقی رہے گا؟ غلبۂ اسلام کے خوف سے تمام باطل قوتیں یکجا ہو گئیں۔ سب متحد ہو گئے۔ اسلام کے خلاف صَف آرا ہوگئے۔ سب نے صرف اسلام کے قصرِ رفیع کو ہدف بنایا۔ ہر طرح سے اسلام کے خلاف محاذ آرائی کی۔ فکری اعتبار سے۔ تمدنی و تہذیبی لحاظ سے۔ معاشرتی و تعلیمی رُ خ سے۔ لیکن تمام کوششیں ان معنوں میں شکست سے دوچار ہوئیں کہ اسلام اپنی اصل شکل میں باقی رہا اور اس کا حق ہونا مثلِ آفتاب پورے عالم پر واضح ہے۔

    دین کی سچائی سے تمام باطل طاقتیں خوف زدہ رہیں۔ اور ان کی سازشیں روز بروز بڑھتی رہیں۔ دین کی حفاظت کے لیے قربانیوں کی بزم آراستہ کی گئی۔ اس رُخ سے ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے اسلامی سال کا آغاز بھی قربانیوں سے ہوتا ہے اور اختتام بھی قربانیوں پر۔ لیکن افسوس کہ ہم سے جذبۂ قربانی و ایثار رُخصت ہو گیا۔ ہمیں دیگر اہم پہلو تو یاد رہے؛ جذبۂ ایثار بھول گئے؛ ضروری چیزیں توجہ میں رہیں لیکن جدوجہد کا حکم و اَمر فراموش کر بیٹھے۔ دین کی بقا و اقامت کے لیے عائد ذمہ داریاں فراموش کر بیٹھے-

[۱] ماہِ محرم الحرام پہلا اسلامی مہینہ ہے۔ نیا اسلامی سال 1444ھ کی آمد آمد ہو چکی ہے۔ جس کا آغاز ہی شریعتِ اسلامی کے تحفظ کے لیے میدانِ کربلا میں پروردۂ آغوشِ مصطفیٰ؛ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی بے مثل قربانی سے ہوتا ہے۔ گویا یہ درسِ جمیل ہے کہ شریعت کا اصل چہرہ مسخ کرنے کی جہاں کوشش ہو وہاں ہر طرح کی قربانی دے کر شریعت کے تحفظ کو فائق رکھا جائے۔ یزید نے شریعت پر کربلا میں حملہ کیا اور ہندُستان میں یہاں کی مشرک حکومت شریعت پر حملہ کر رہی ہے؛ ہمیں کسی ایسے قانون سے اتفاق نہیں جو قانونِ اسلامی سے متصادم ہو۔ جو طبیعت کی اختراع ہو؛ ہم خدائی قوانین کے پابند ہیں؛ شریعت پر یقینِ کامل رکھتے ہیں   ؎

عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے  مِری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لَے تو حجازی ہے مِری

[۲] اسلامی سال کا اختتام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے راہِ خدا میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی سے ہوتا ہے؛ جس کی یاد ہر سال تازہ کی جاتی ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قربانی کی یادگار کو باقی رکھ کر ہمیں دین کے لیے قربانیوں کی فکر عطا کی؛ کہ جب بھی دین پر وقت آئے ایثار کی مثالیں پیش کر دی جائیں۔

[۳] اسی اختتامی ماہ ذی الحجہ میں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی۔ شہید کرنے والے وہی لوگ تھے جو بظاہر کلمہ گو تھے؛ لیکن نظامِ اسلام سے منحرف تھے؛ وہ یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ تھے؛ جنھوں نے عظیم صحابی خلیفۂ سوم حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے اسلام مخالف قوتوں کو فائدہ پہنچایا۔ جب کہ ایثارِ عثمانی نے یہ واضح کر دیا کہ دین کے نظام میں کسی بھی سمجھوتہ کی گنجائش نہیں۔ دین کی بہاریں لہو خیزی سے قائم رہیں گی۔

[٤] وہ مردِ جلیل جس کی شجاعت نے قیصر و کسریٰ کو سرنگوں کر دیا۔ جس کے عدل و انصاف نے دُنیا کو ستم کی آندھیوں سے بچایا اور ایوانِ کفر میں زلزلہ برپا کیا۔ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ۔ جن کی رہ گزر سے شیطان بھی دور بھاگتا ہے۔ جن کی شوکت کا رعب آج بھی اہلِ کلیسا پر طاری ہے۔ جن کی شہنشاہیت کا دبدبہ پوری یہودی و عیسائی سوسائٹی پر ہے۔ جن کے کارہاے نمایاں نے اسلام کے قصرِ رفیع کو استحکام بخشا؛ ان کی شہادت بھی ماہ ذی الحجہ میں ہوئی۔ ایسے مردِ جلیل کے لہو کی بہاروں سے اسلام کا گلشن مہک رہا ہے۔ ان کے نظام کی تمکنت آج بھی باقی ہے اور مشعلِ راہ-

    ان تمام واقعات میں ایک ہی درس ہے؛ اسلام و شریعت کے تحفظ کے لیے ایثار کے دیپ جلائے جائیں۔ قربانیوں کی بزم آراستہ کی جائے۔ جان وار دی جائے لیکن خلافِ شریعت کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ باطل سے خوف زَدہ ہونا مومن کی شان نہیں۔ اور جذباتی فیصلوں سے بھی گریز کیا جائے؛ بلکہ اپنا آئیڈیل اپنے اسلاف کو بنایا جائے جن کی قربانیوں نے چمنِ اسلام کو شاداب رکھا؛ جن کے طرزِ حکمرانی نے قیصر و کسریٰ کو گھٹنوں بٹھایا۔ اپنے اندر جو کمیاں ہیں وہ اسلاف کی مبارک زندگیوں سے درس لے کر دور کی جائیں اور ایثار کے جذبۂ صالح کو تازہ کر کے قوم کے مضمحل جسم میں ایمان کی حرارت و توانائی دوڑا دی جائی   ؎

اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
٭٭٭



Source link

Exit mobile version