Site icon Islamicus

سفر معراج کی منظر کشی



ماہ رجب المرجب کی ٢٧/ ویں شب ہے- عرش کی قندیلیں سارے جہان کو سرور و انبساط کا پیغام سنا رہی ہیں- پوری کائنات انوار و تجلیات سے سرشار ہے- آج آسمان نئے انداذ میں نکھارا گیا ہے- جگہ جگہ حوران بہشت ریشم و کمخواب کے قیمتی اور دیدہ زیب لباس میں آنے والے مہمان اعظم کی منتظر ہیں- نرگس منتظر کا فرش بچھا ہے- رحمت الٰہی کا شامیانہ تنا ہوا ہے- فرح و طرب نے سارے عالم پر قبضہ کر لیا ہے- طائران خوش الحان اپنے روح نواز نغمہ سنجیوں سے دلوں پر کیف و مستی کا نزول کر رہی ہیں- عرشِ اعظم حسین سے حسین تر نظر آرہا ہے- اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ آج کی رات جنت کو سجا دو- جہنم کو بجھا دو- کوثر و تسنیم کی موجوں کو خوشی و مسرت کا مژدہ جانفزا سنادو اور حوران بہشت عمدہ و نفیس لباس زیبِ تن کرلیں- تمام فرشتے محبوب پاک صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں خوش آمدید کہنے کے لئے مؤدب کھڑے ہو جائیں- فرشتوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگی ہیں- کہ آج کیا بات ہے؟ کہ ساری دنیا بقعہ نور بنی ہوئی ہے- ہر چہار جانب سے مسرت و شادمانی کی حسین انجمنیں دلوں کو فتح کئے لیتی ہیں- فرشتے جواب دیتے ہیں کہ آج عرشِ اعظم کا نیر اعظم نور مجسم دیوان حشر کے صدر نشیں مسیح دو عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم لباس بشری میں تشریف لارہے ہیں-

خالق کائنات نے ارشاد فرمایا کہ میرا محبوب آج کی رات ام ہانی کے گھر محو خواب ہے- اسے میرا پیغام سنا دو کہ آج تمہیں تمہارا رب یاد فرما رہا ہے- جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوتے ہیں- دیکھا حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم بستر استراحت پر آرام فرما ہیں- جبریل امین کبھی قدم کا بوسہ لیتے ہیں- کبھی جبریل امین کے رخسار پائے اطہر سے شرف یابی کی برکت حاصل کرتے ہیں- دریں اثنا حضور نے آنکھیں کھولیں لب مبارک کو جنبش ہوئی فرمایا! جبریل امین آج کیا بات ہے- بیدار کرنے کا انداز بہت ہی نرالا معلوم ہوتا ہے- جبریل امین دست بستہ کھڑے ہوئے اور محب حقیقی کی یاد آوری کا روح پرور مژدہ سنایا- پھر کعبہ مقدسہ میں رونق افروز ہونے کی التجاء کی- قدوم ناز کو جنبش ہوئی اور رحمت مجسم کعبہ مقدسہ میں جلوہ بار ہوئے- نورانی رخساروں کی تابش سے کعبہ آفتاب نیمروز کی طرح چمکنے لگا- کعبہ مقدسہ رحمت و نور کی بارش انوار سے گل کدہ فردوس بن گیا- پھر حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم چاہ زمزم کے قریب لائے گئے وہاں آپ کے سینہ اقدس کو چاک کیا گیا اور انوار و تجلیات سے سینہ بے کینہ کو منور کردیا گیا- شق صدر بھی عجب شان سے ہوا نہ کسی قسم کا نشتر نہ کسی قسم کی تکلیف یہ شق صدر سیر ملکوت اور دیدار باری کے لئے ایک قسم کی طہارت تھی تاکہ حریمِ حق میں پہنچ کر حضورِ حق کا مشاہدہ اپنے سر کی آنکھوں سے بہ اطمینان وسکون کرسکیں- یہ منظر بھی بڑا پرکیف آور تھا- جبریل امین ستر ہزار ملائکہ کے ساتھ ادب واحترام کا پیکر بنے ہوئے تھے- انبیاء اکرام حضرتِ آدم تا عیسیٰ علیہ السلام استقبال کے لئے کھڑے تھے- اور قدسیوں کے پرے کے پرے سلامی کے لئے کھڑے تھے- حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سواری سے اترے آفتاب نبوت کی چمک سے بیت المقدس جگمگا اٹھا- نوری اجسام کے انوار فلک تک پہنوچے اور ان کے سامنے تاروں نے شرمندگی سے اپنے چہرے ڈھانپ لئے- بیت المقدس سرور کونین کے قدوم ناز پاکر خوشی سے جھوم اٹھا-

حاکم کائنات نے اس زمین کو بھی نکہت و نور سے معمور کردیا- گلشنِ تمنا میں نسیمِ سحری خرام ناز سے چلنے لگی- خفتہ بخت جاگا- اور دیکھتے ہی دیکھتے نوری قافلے کی انجمن سے سارا بیت المقدس گلزار و گلنار ہو گیا- امام الانبیاء، خاتم الاصفیاء محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے- ستارے جھکے ملائکہ نے استقبال کیا- مسجد اقصیٰ کی دیواریں شان عبودیت میں قدم بوس ہوئیں انبیاء کرام قطاریں باندھے کھڑے ہوئے تھے- سبھوں نے صلوت و سلام نچھاور کر کے حضورِ اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی عشق و محبت اور ادب واحترام کا ثبوت پیش کیا- حضورِ اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے تمام انبیاء کرام کو دو رکعت نفل نماز پڑھائی- یہ نماز بھی تاریخ کے اوراق میں مثالی حیثیت رکھتی ہے-تمام انبیاء مقتدی تھے- اور رسول اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم امام- میرے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقدم اور سارے انبیاء مؤخر- اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ!

              نمازِ  اقصیٰ  میں   تھا   یہی  سر
              عیاں   ہو     معنیء    اول و آخر
              وہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر
             جو  سلطنت   آگے   کر   گئے   تھے

جب سیاہ لامکاں نماز سے فارغ ہوئے تو جبریل امین نے شراب اور دودھ کے پیالے پیش کئے حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا- جبریلِ امین لب کشا ہوئے کہا آپ نے فطرت سے موافقت کی ورنہ آپ کی امت گمراہ ہو جاتی- پھر یہ مقدس قافلہ آسمان کی سیر کے لئے کمر بستہ ہوا- بیت المقدس کے میناریں الوداعیہ پیش کرنے کے لئے خم ہوگئیں- حمد لئے پھریرے لہرائے آج ایک عبد اپنے معبود سے ایک محبوب اپنے محب سے ملاقات کے لئے جارہاہے- ملائکہ کی موئدب صفوں کو چیرتے ہوئے حضور آن کی آن میں آسمان اول پر پہونچے- سارا فلک بہشتی خوشبودار پھولوں سے معطر ہے-

           نہا   کے   نہروں     نے    وہ   چمکتا
           لباس      آب      رواں      کا      پہنا
           کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا
          حبابِ     تابہ   کے    تھل   ٹکے   تھے
                           (امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ)

دروازہ کھلا تشنگانِ دیدار نے اپنی پیاس بجھائی- آگے بڑھے حضرتِ آدم علیہ السلام سے ملاقات کی- ہر آسمان کی آپ نے سیر کی اور مختلف انبیائے کرام سے ملاقات کی- جب ساتویں آسمان پر پہونچے تو شیخ الانبیاء حضرتِ ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی- پھر جنت و دوزخ کے عجائب و غرائب کا سر کی آنکھوں سے مشاہدہ فرمایا- آپ سدر المنتہیٰ پر جلوہ افروز ہوئے جہاں آپ نے رنگ برنگ کے قدرتی شاہکار ملاحظہ فرمائے جو احاطہ تحریر سے باہر ہیں- اور قلم کی نوک اس دل آفریں سماں کو صفحہ قرطاس پر لانے سے قاصر ہے- یہاں آکر کے جبریل امین علیہ السلام کے پر تھک گئے – 

                   تھکے تھے روح الامیں کے بازو
                  چھٹا وہ  دامن  کہاں وہ  پہلو 
                  رکاب     چھوٹی  امید    ٹوٹی
                  نگاہ  حسرت    کے   ولولے تھے
                                (امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ)

جبریل امین علیہ السلام نے رخصت کی اجازت چاہی- حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے لبوں پر اک نازک مسکراہٹ نمودار ہوئی- ارشاد فرمایا آگے بڑھئے جبریلِ امین نے عرض کیا-

                   اگر یک سر موئے بر تر پرم
                    فروغ  تجلی   بسو زد پرم

الغرض حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم آگے بڑھے نور میں غوطہ زن کیا گیا آپ نے ستر حجابات کو طے فرمایا یہاں آپ تنہا تھے- حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم خود ارشاد فرماتے ہیں کہ یہاں مجھ سے ہر جن و انس کا حسن منقطع ہو گیا- اس وقت مجھے وحشت سی لاحق ہوئی اتنے میں ابوبکر کی زبان میں آواز آئی کہ ٹھرئے آپ کا رب صلوت فرمارہا ہے- میں اسی خیال میں تھا کہ ابوبکر نے کیا مجھ پر سبقت کی کہ علو اعلیٰ سے ندا آئی کہ اے خیر البریہ قریب آئیے اے محمد قریب آئیے حبیب کو نزدیک آنا چاہئے- 

             بڑھ  اے    محمد   قریں  ہو احمد
            قریب      آ         سرور        ممجد
           نثار    جاؤں    یہ     کیا   ندا  تھی
           یہ کیا سماں تھا یہ کیا  مزے  تھے
                            (امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ)

یہی وہ مقام ہے جس کا تصور فلاسفہ کے ذہن و دماغ سے بالا و برتر ہے- اسی منزل پر عارفین و عقلاء کا وجدان و ادراک سر تسلیم خم کر لیتا ہے- پھر واہب لایزال نے پردہ اٹھایا اور خلوت گاہ راز میں ناز و نیاز کے پیغام دئے- انوار و تجلیات کا سیلاب امنڈ رہا تھا-جن کی نزاکت الفاظ کے پیچ و خم برداشت نہیں کر سکتے- حضورِ اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کی عظیم و جلیل نشانیوں کا مشاہدہ اپنے سر اقدس کی چشمان مبارکہ سے کیا- پھر اس نعمتِ عظمیٰ اور دولتِ کبریٰ کے حصول کے بعد حریمِ اقدس سے اسی شان ہمایونی کے ساتھ خطہ پاک پر جلوہ افروز ہوئے-

              خدا  کی  قدرت  کہ چاند حق کے
              کروڑوں  منزل  میں  جلوہ  کر کے
             ابھی  نہ تاروں  کی چھاؤں  بدلی
              کہ  نور    کے    تڑکے   آلئے     تھے
                               (امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ)

معراج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں سب سے عمدہ اور جید روایت:
حضرتِ انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا، میرے پاس براق لایا گیا جس کا رنگ سفید، حمار سے بڑا اور خچر سے چھوٹا،اس کا قدم حد نگاہ پر پڑتا- اس پر سوار ہوکر بیت المقدس پہنچا،میں نے اسے اس حلقہ کے ساتھ باندھا جس کے ساتھ انبیاء علیہم السلام باندھتے تھے- میں نے مسجد میں داخل ہو کر دو رکعتیں ادا کیں پھر نکلا، جبریل امین شراب اور دودھ کا برتن لائے میں نے دودھ کو منتخب کیا جبریل کہنے لگے آپ نے فطرت کو چنا ہے، پھر مجھے آسمان دنیا کی طرف بلند کیا گیا- جبریل نے دستک دی سوال ہوا تم کون ہو؟ بتایا جبریل، پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے میرا نام لیا محمد صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم، پوچھا کیا انہیں مبعوث کیا گیا ہے؟ کیا ہاں بلایا گیا ہے- ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا تو وہاں میری ملاقات حضرتِ آدم علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائیں دیں، پھر مجھے دوسرے آسمان کی طرف لے جایا گیا جبریل نے دستک دی پوچھا کون؟ بتایا جبریل، پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ بتایا ہاں، ہمارے لئے دروازہ کھلا تو وہاں میری ملاقات حضرتِ عیسیٰ اور حضرتِ یحییٰ علیہم السلام سے ہوئی، دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور دعا دی، پھر میں تیسرے آسمان کی طرف لے جایا گیا، جبریل نے دستک دی سوال ہوا تم کون ہو؟بتایا جبریل، پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے میرا نام محمد صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم، پوچھا کیا انہیں مبعوث کیا گیا ہے؟ کہا ہاں انہیں بلایا گیا ہے، دروازہ کھلا تو وہاں حضرتِ یوسف علیہ السلام سے ہماری ملاقات ہوئی انہیں حسن کا ایک حصہ عطا کیا گیا ہے- انہوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے دعا دی- پھر میں چوتھے آسمان کی طرف لے جایا گیا- جبریل نے دستک دی سوال ہوا تم کون ہو؟ بتایا جبریل، پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں بلایا گیا ہے ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا تو وہاں حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے بھی مرحبا کہا اور دعا دی- اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے- 
ترجمہ:- اور ہم نے اسے بلند جگہ کی طرف اٹھایا- (سورہ مریم/آیت نمبر 57/ پارہ 16/)

پھر میں پانچویں آسمان کی طرف بلند کیا گیا جبریل نے دستک دی سوال ہوا تم کون ہو؟ بتایا جبریل، پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ کہا ہاں بلایا گیا ہے ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا تو وہاں حضرت ہارون علیہ السلام نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعا دی،پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف لے جایا گیا، جبریل نے دستک دی سوال ہوا تم کون ہو؟ بتایا جبریل، پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں؟انہوں نے کہا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم پوچھا کیا انہیں مبعوث کیا گیا ہے؟ بتایا ہاں، ہمارے لئے دروازہ کھلا تو وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعا دی، پھر میں ساتویں آسمان کی طرف لے جایا گیا جبریل نے دستک دی سوال ہوا تم کون ہو؟ کہا جبریل پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے- کہا ہاں بلایا گیا ہے- ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا تو وہاں میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پایا جو بیت المعمور کے ساتھ تکیہ لگائے تشریف فرما تھے-وہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں- اور وہ دوبارہ نہیں آتے- پھر مجھے سدر المنتہیٰ پر لے جایا گیا- جس کے پتے ہاتھی کے کانوں اور پھک قلال کی طرح تھے فرمایا جب اسے اللّٰہ کے امر نے ڈھانپ لیا جیسے کہ ڈھانپنا تھا تو اس میں تبدیلی آئی اس کے حسن کو مخلوق بیان کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتی فرمایا پھر اس نے میری طرف وحی کی، جو وحی کرنا تھی، مجھ پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں میں واپس لوٹا، حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا انہوں نے پوچھا رب تعالیٰ نے تمہاری امت پر کیا فرض فرمایا ہے؟ میں نے بتایا پچاس نمازیں، کہنے لگے واپس جاکر اپنے رب سے کمی کراؤ تمہاری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی- مجھے بنی اسرائیل میں اس کا تجربہ ہوچکا ہے- میں اپنے رب کی طرف لوٹا اور عرض کیا،اے میرے پروردگار میری امت پر تخفیف فرما، تو مجھ سے پانچ نمازیں کم کردی گئیں- میں واپس حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور پانچ کی کمی سے آگاہ کیا کہنے لگے تمہاری امت میں اتنی طاقت نہیں واپس اپنے رب کے حضور جاؤ اور کمی کی درخواست کرو- 

فلم ازل ارجع بين ربى وبين موسى

میں اپنے رب اور موسی کے درمیان آتا جاتا رہا
حتیٰ کہ فرمان الہٰی ہوا، یا محمد صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں ہر نماز کا ثواب دس کے برابر ہے تو یہ پچاس ہوجائیں گی- تو جس نے برائی کا ارادہ کیا لیکن نہ کی تو کوئی شی نہیں لکھی جائے گی،اگر کرلی تو ایک برائی لکھی جائے گی،میں نے واپس آکر حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کو اطلاع دی کہنے لگے پھر واپس جاکر اپنے رب سے کمی کراؤ میں نے کہا میں اتنی بار گیا ہوں اب مجھے جاتے ہوئے حیا محسوس ہوتی ہے- (مسلم، کتاب الایمان)

( امام سیوطی لکھتے ہیں باب معراج میں یہ روایت سب سے عمدہ اور جید ہے انہوں نے اپنی کتاب الایتہ الکبریٰ کی ابتداء اسی روایت سے کی ہے)

حضرتِ ابوذر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں مکہ میں تھا ہمارے گھر کی چھت میں سوراخ کیا گیا اور جبریلِ امین آئے انہوں نے میرا سینہ چاک کر کے اسے ماء زم زم سے غسل دیا پھر سونے کا تھال لایا گیا جو حکمت و ایمان سے مالامال تھا اسے میرے سینے پر انڈیل کر سی دیا گیا- پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آسمان کی طرف لے چلے جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل نے حازن سما سے دروازہ کھولنے کو کہا اس نے پوچھا کون ہو؟ بتایا جبریل، پوچھا تمہارے ساتھ کوئی ہے؟ انہوں نے کہا محمد صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم، پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ بتایا ہاں دروازہ کھلا، ہم اس کے اوپر گئے تو وہاں ایک شخص تشریف فرما تھے ان کے دائیں بائیں افراد تھے وہ دائیں دیکھ کر مسکراتے اور بائیں دیکھ کر روتے، انہوں نے مجھے صالح اور ابن صالح کہ کر خوش آمدید کہا، میں نے جبریل سے کیا یہ کون ہیں؟ بتایا یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں  ان کے دائیں بائیں ارواح اولاد ہیں دائیں طرف جنتی جبکہ بائیں طرف دوزخی ہیں اس لئے دائیں طرف دیکھ کر خوش اور بائیں طرف دیکھ کر روتے ہیں- مجھے دوسرے آسمان کی طرف بلند کیا اور خازن سے دروازہ کھولنے کا کہا تو اس نے بھی پہلے کی طرح سوال وجواب کرکے دروازہ کھولا، حضرتِ انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضورِ اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آسمانوں پر حضرتِ آدم، حضرتِ ادریس، حضرتِ عیسیٰ اور حضرتِ ابراہیم صلوات اللہ علیہم کا ذکر کیا لیکن ان کے مقامات کی تفصیل نہیں بتائی البتہ حضرتِ آدم علیہ السلام سے آسمان دنیا اور حضرتِ ابراہیم علیہ السلام سے چھٹے آسمان پر ملاقات کا بتایا، فرمایا جب جبریل مجھے لے کر حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے صالح صالح کہ کر خوش آمدید کہا میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ بتایا حضرتِ ادریس علیہ السلام ہیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گذرا انہوں نے بھی مجھے اس انہی الفاظ سے مرحبا کہا میرے پوچھنے پر بتایا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں پھر میرا گذر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہوا انہوں نے بھی ایسے ہی کلمات سے خوش آمدید کہا میں نے پوچھا تو بتایا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں، پھر میرا گذر حضرت ابرہیم علیہ السلام پر ہوا انہوں نے نبی صالح اور ابن صالح کہ کر مرحبا کہا میں نے پوچھا تو بتایا یہ حضرت ابرہیم علیہ السلام ہیں- 

ثم عرج بى حتى ظهرت لمستوى اسمع فيه صريف الاقلام

پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتیٰ کہ ایک میدان آیا جہاں میں نے اقلام تقدیر کی آواز سنی-
پھر الله تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض فرمادیں، میں لے کر واپس لوٹا حتیٰ کہ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے پوچھا، اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ بتایا پچاس نمازیں، کہنے لگے اپنے رب کے پاس جاکر کمی کروائیں، تمہاری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، میں واپس حاضر ہوا تو کچھ حصہ کم کیا، میں لوٹ کر حضرتِ موسیٰ کے پاس آیا اور بتایا اتنی کم ہوگئی ہیں، کہنے لگے آپ پھر جائیں امت اتنی طاقت نہیں رکھتی، واپس حاضر ہوا تو کچھ اور کم ہوئیں، میں نے آکر بتایا تو پھر کہنے لگے پھر اپنے رب کے پاس جاؤ ان کی بھی طاقت امت میں نہیں ہے، میں پھر حاضر ہوا تو فرمایا یہ پانچ ہیں- میرے ہاں قول میں تبدیلی نہیں آتی، میں لوٹ کر حضرتِ موسیٰ کے پاس آیا کہنے لگے پھر اپنے رب کی بارگاہ میں جاؤ، میں نے کہا اب مجھے اپنے رب سے حیا آتی ہے پھر میں چلا یہاں تک کہ سدر المنتہیٰ آگئی، اسے جن رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا میں ان کی حقیقت سے آگاہ نہیں، پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا تو وہاں موتیوں کی لڑیاں اور اس کی مٹی کستوری تھی-
______________(صحیح البخاری)



Source link

Exit mobile version