Site icon Islamicus

رحمة للعالمین ﷺ کی سیرت عہدِ حاضر کی ضرورت

سرکار دو عالم ﷺ کی ذات گرامی کو اللہ تبارک و تعالی نے تمام جہانوں کے لئے رحمت اور اپنی توحید کی پہلی دلیل بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا اور نبی اکرم  ﷺ کی ولادت اور بعثت ایک نئے دور کا آغاز اور تاریخ کی ایک نئی جہت کا تعین ہے۔اگر ہم تاریخ میں آپ  ﷺ سے پہلے اور بعد کے دور کا موازنہ کریں تو یہ بات روز رزشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ ﷺ کی آمد کے بعد انسانیت مکمل طور پر ایک نئی دنیا میں قدم رکھی، ایک ایسی دنیا جس میں شعور،آگہی، تہذیب، ثقافت اور اعلی انسانی اقدار کے فروغ،قیام اور استحکام کے وہ نظائرملتے ہیں جس کا آپﷺ کی آمد سے قبل تصور بھی مفقود تھا ۔ آپ  ﷺ کی سیرت مبارکہ سے رہنمائی اور اخذ فیض کے جو مناہج بطور امت اپنانا چاہئے تھی وہ اپنایا نہ جا سکا۔ ملت اسلامیہ جب ایک ہزار سال تک پوری دنیا میں مقتدر رہنے کے بعد زوال کا شکار ہونا شروع ہوگئی تو وہاں دین کے مختلف شعبوں خصوصا سیرت رسول ﷺ کے ساتھ ہمارے تعلق اور فہم کی زوال کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ان میں نمایاں ترین پہلو امت مسلمہ کا قلبی اور عملی طور پر سیرت سے ہٹ جانا اور فکری سطح پر سیرت الرسول  ﷺ کے حقیقی فہم سے عاری ہونا ہے۔جس کا ثمرہ یہ نکلا کہ صرف امت مسلمہ کی اپنی انفرادی ، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں سیرت کا فیضان کما حقہ جاری نہ رہا بلکہ عالمی سطح پر امت اجابت تک بھی سیرت الرسول ﷺ اور اسلام کا پیغام کما حقہ نہ پہنچا سکی۔

اخلاق و عادات مصطفی:

صداقت ، نبوت و رسالت کی لازمی صفت ہے کیونکہ رسالت و نبوت کی سچائی کی دلیل نبی کا ذاتی گفتار میں سچا ہونا ہے- قرآن پاک میں رب العزت نے کچھ نبیوں کا بھی ذکر فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے  ﴿و اذکر فی الکتاب ابراہیم انہ کان صدیقا نبیا﴾ سورہ مریم۔ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا﴿واذکر فی الکتاب اسماعیل انہ کان صادق الوعد وکان رسولا نبیا﴾ – جبکہ ہمارے نبی اصدق الصادقین تھے، اہل مکہ نے آپ ﷺ کو قبل از نبوت ہی صادق و امین کا لقب دیے دیا تھا۔آپ کے پاس بڑے بڑے کفار مکہ بھی فیصلہ طلب کرتے ہوئے آتے تھے۔یہاں تک کہ ابو جہل جو آپ کا دشمن تھا وہ کہتا تھا کہ اے محمد میں آپ کو کاذب نہیں سمجھتا لیکن آپ کی تعلیم پر میرا دل نہیں ٹھہرتا ۔

حلم و عفو:

حلم ایک اخلاقی صفت ہے جو اچھے اخلاق و کردار کا آئینہ ہے ، حلم ایسی خوبی ہے کہ جس شخص میں جس قدر زیادہ ہو وہ اتنا ہی زیادہ صاحب  اخلاق اور با وقار ہوتا ہے ۔ اسلامی اخلاقیات میں حلم و عفو کو خلق عظیم سمجھا جاتا ہے۔رسول ﷺ کا حلم و عفو بے مثل و بے مثال ہے۔آپ ﷺکی زندگانی کا ہر پہلو حلم و عفو سے مزین ہے۔ دشمنان اسلام نے رسول کریم ﷺ کو زندگی بھر تکالیف دیئے، رات دن ظلم و ستم کئیے۔مگر اس کے باوجود بھی آپ  ﷺ نے انتقام نہ لیا بلکہ اس کے عوض دعا دی ۔ اسی کی طرف شاعر اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے

دشمن سے بھی بدلہ نہ لیا حضرت نے کبھی بھی

 مارا بھی تو اخلاق کی تلوار سے مارا

جنگ احد کے موقع پر عتبہ بن ابی وقاص نے آپ کے دندان مبارک کو شہید کر دیا اور عبد اللہ بن قمیہ نے چہرہ انور کو زخمی اور خون آلود کردیامگر آپﷺ نے کچھ نہ کیا سوائے “اللہم اغفر لقومی فانہم لا یعلمون”  – ایک موقع پر لبید بن اعصم نے آپ پر سحر کیا اور بذریعے وحی اس کا حل معلوم ہو گیا مگر آپﷺ نے اس سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا۔ ہمیں بھی چائیے کہ اپنے پیارے رسولﷺ کی ان نرالی اور بے مثال اداؤں کو اپنائے۔

تواضع:

رسول ﷺ کی شان تواضع بھی نرالی ہے۔ اللہ رب العزت نے جب رسولﷺ کو یہ اختیار دیا کہ آپ چاہے تو شاہانہ اور ملکانہ زندگی بسر کرے یا ایک بندہ ہو کر بندگی کی زندگی گزارے تو رسول کونین ﷺ نے بندگی کی زندگی کو ترجیح دی۔اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے تواضع کا اندازہ ہوجائے گا.

 ایک مرتبہ رسول ﷺ ایک بازار میں داخل ہوئے اور سامان خرید نے کی غرض سے ایک دوکان میں گئے اور تولنے کو کہا تو  دوکان دار نے آپ ﷺ کو دیکھتے ہی آپ کی طرف کودا اور دست مبارک کو بوسہ دینے لگاتو رسول ﷺ نے فرمایا کہ یہ عجم والوں کی عادت ہے کہ وہ اپنے بادشاہوں کو بوسہ دیتے ہیں جب کہ میں بادشاہ نہیں ہوں بلکہ تم ہی میں سے ایک فرد ہوں۔

حسن معاشرت:

رسول اکرم ﷺ اپنے ازواج مطہرات،اپنے احباب،اصحاب، اپنے رشتہ داروں ،پڑوسیوں اور ہر ایک کے ساتھ خوش اخلاقی اور ملنساری کا معاملہ کرتے تھے کہ اہل مکہ آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کے گرویدہ اور مداح تھے ۔خدائے رب العزت نے آپ ﷺکے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿انک لعلی خلق عظیم﴾ ترجمہ :آپ خلق عظیم کے حامل ہے ۔اسی طرح ایک مرتبہ ایک شخص نے رسول ﷺکے حوالے سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کان خلقہ االقران یعنی آپ ؐ کے اخلاق قرآن کریم کی تعلیم کی عین تصویر ہیں.

 آپ کے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے دس برس تک سفرو حضر میں حضور ﷺ کی خدمت کا شرف  حاصل کیا مگر” ما قال لی اف قط وما قال لی شیئی صنعتہ لما صنعتہ ولا لیشئی ترکتہ لما ترکتہ” )ترمذی (ترجمہ  حضورﷺ نے نہ مجھے ڈانٹا نہ جھڑکا بلکہ کبھی بھی اف تک نہ فرمایا اورنہ کبھی یہ فرمایا کہ تونے فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا ۔

 امت کے حقوق:

اطاعت رسول ﷺ

 اطاعت رسول ﷺ ہر ایک امتی پر لازمی ہے۔خدا نے جس چیزکا ہمیں حکم دیا اس کا بجالانا ہر امتی پر فرض عین ہے ۔اطاعت رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے خدائے باری ارشاد فرماتا ہے﴿یا ایہا الذین امنوا اطیعوا اللہ ورسولہ﴾ ترجمہ:اے ایمان والوں اللہ اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔اورآگے یوںارشاد فرماتا ہے ﴿واطیعوا اللہ والرسول  لعلکم ترحمون﴾  ترجمہ اے ایمان والوں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر کیا جائے ۔رسول ﷺکی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ خدانے یوں بیان فرمایا  ﴿وماآتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتھوا ﴾ ترجمہ جس چیز کی تمہیں رسول حکم دیں اسے مان لواور جس سے روکے رک جاؤ۔ اللہ رب العزت اطاعت کرنے والے کی فضیلت یوں بیان فرماتا ہے ﴿ومن یطع اللہ والرسول فأولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبین والصدیقین والشہدائ الصالحین وحسن اولئک رفیقا ذلک الفضل من اللہ وکفی باللہ علیما﴾ خدا کے اس قول سے بات سمجھ میں آتی ہے کہ خدا کی رضامندی رسول کو خوش کرنے میں ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لا یومن احدکم حتی یکون ہواہ تبعا لما جئت بہ

اتباع سنت

حصول رحمت کا اصل ذریعہ اتباع سنت نبوی ہے یعنی جو شخص زندگی کے معاملات ،عبادات،معیشت، معاشرت اور ثقافت وغیرہ میں حضور پاک ﷺ کی سنت کاخیال کرتا ہے اور ہر کام  کو اسی طرح انجام دینے کی کوشش کرتا ہے،جس طرح نبی پاک ﷺ کیا کرتے تھے تو اللہ تبارک وتعالی اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ اتباع سنت میں اللہ کے رحمت کے خزانے چھپے ہوئے ہیں اس لئے زندگی کے ہر شعبے میں اتباع سنت کا خیال رکھنا چایئے ۔خدا تبارک وتعالی اتباع سنت نبوی کے بارے میں فرماتا ہے﴿ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم﴾  ترجمہ   اے محبوب آپ فرمادیجئے کہ اے لوگ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے  فرمانبردار ہو جائو اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اوراللہ بخشنے والا  مہربان ہے۔ اس آیت کریمہ میں سرکار دو عالمﷺ کی اتباع وپیروی کو محبت خداوندی کی دلیل قرار دی گئی ہے – گویا اتباع رسول ﷺ کے بغیر اگر کوئی شخص محبت خداوندی کا دعوی کرے تووہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہے ۔اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا﴿ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجو اللہ والیوم الاخر﴾۔ 

اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عبد اللہ بن مبارک نے کہا کہ:

تعصی الالہ و انت تظهر حبہ         ھذالعمری فی القیاس بدیع

لو کان حبک صادقا لأطعتہ        ان المحب لمن یحب مطیع

 

معاشرہ کی بگڑتی حالت:

لیکن اگر آ ج ہم جس کھٹن دور سے گزررہے ہیں اس کا جائزہ لے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائیگی کہ دن بہ دن فتنہ وفساد اپنے دائرے کو وسیع کر تا چلاجارہا ہے اور مسلم معاشرہ اسکے جال میں پھنستے چلے جارہا ہے ۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسکے اسباب وعلل اور حل کی طرف رسید ہونا تھوڑاسہل ہو گا۔ہمیں اس فرقا کو سمجھنا ہوگا کہ آج کی مسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عہد ومعود کے مبارک لوگ نہیں ہیں ۔اس وقت لوگوں میں خوف خدا اور حب رسول کو ٹ کو ٹ کر بھرا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ 313 کی قلیل جماعت ہونے کے باوجود تمام کفرمکہ پر اپنا دبدبہ رکھتے تھے ۔ مگر دور حاضر کے مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول ہے نہ ہی خوف خدا ا سی کے طرف کسی شاعرنے کیا ہی خوب اشارہ کیا ہے۔

دن لہو میں کھوناتجھے شب صبح تک سونا تجھے

شرمِ نبی خوف خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

          دوسری جانب وہ لوگ جو  انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء کے مصداق تھے جبکہ آج نہ لوگوں میں علم کی عظمت ہے نہ ہی علم محض کہے جانے کو مسلمان ہے ۔ جب رسول ﷺ کی سیرت اور پیاری پیاری سنتوں کی باتیں کی جاتی ہیں تو کہنے لگتے ہیں ۔

  سنے گا اقبال کون ان کو یہ ا نجمن ہی بدل گئی ہے

نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنارہے ہیں

          اس لئے ہمیں وقت اور حالات کو سمجھتے ہوئے بہت نزاکت سے دعوت وارشاد جیسے کام کو انجام دینا ہو گا ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ دور حاضر  کے ایسی حالت میں سیرت الرسول ﷺکے تذکرہ سے بہتر کوئی عمل نہ ہوگا ۔درج ذیل میں چند اسباب ذکر کئے دیتے ہیں۔

          ہمارے سماج کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر ڈاکٹر آفسر انجینیر بنانا چاہتے ہیں تو وہ دینی علوم سیکھ کر کریں گے آفسر بن پائینگے نہ ہی ٹھیک سے اپنا پیٹ پال سکینگے لوگ اسے پڑھا لکھا جاہل کہیں گے ۔ جبکہ خدا کی نظر میں اس سے بہتر کوئی عمل نہیں ہے ۔اور رسول خدا نے فرمایا  الا ان الدنیا ملعونۃ وملعون ما فیہا الا ذکر اللہ و ما والاہ وعالم ومتعلم رواہ الترمذي ترجمہ دنیا کی تمام چیز پر لعنت کی گئی ہے سوائے خدار کے ذکر ‘ عالم اور متعلم کے۔

          آج سائنس وٹکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے اقوام ایشیا باخصوص بر صغیر کے لوگوں کو یہ باور کرادیا ہے کہ صرف انگریزی زبان میں ہی کا میابی حیات کو ودیعت کی گئی ہے ۔اگر کا مرانی کے گوہر مقصود تک پہنچنا ہے تو محض انگریزی اور اس سے متعلق مضامین کا مطالعہ کرو ۔تھوڑے صحیح اور تھوڑے غلط نظریہ کا یہ آمیزہ بھی مسلمانوں کے اندر سے مذہبی تعلیم کی اہمیت کو ختم کرنے اور نوجوانوں کو مذہب اور رسول کی سیرت سے دور و بے زار کرنے کا مجرم ہے ۔ انگریزی علوم کو نہ میں بر ا سمجھتا ہوں اور نہ ہی میں اس کے مخالف ہوں مگر کسی چیز کو اس کے اصلی مقام سے بڑھانا یا گھٹا نا اچھی چیز نہیں۔

          آج کے مسلمان حضرات آرائشی زندگی میں ایسے غوطہ زن ہو چکے ہیں کہ انھیں دین کی فکر ہے اور نہ ہی انسانیت کی واقفیت اور مغربی تہذیب وتمدن ان کے دلوں کو بھانے لگا ہے حقیقت تویہ ہے کہ انسانی زندگی کے ہر شعبے پر مغرب پرستی کی بیماری چھائی ہوئی ہے ۔اس کی سوچ طرز زندگی رہن سہن بود وباش کا طریقہ معاشرہ اور افکار وخیالات سب کچھ مغرب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہے اور اسی میں انھیں کامیابی و کامرانی اور مقصود حیات سمجھتے ہیں۔

ہمارے مسلم نوجوان ایسے ایسے عمل انجام دیتے ہیں جن کا دین وشریعت سے تعلق نہیں ہوتا ہے بلکہ خدا اور رسول کی ناراضگی کو بڑھاتے ہیں جو  انکی شکستگی کا سبب بنتا ہے ۔صبح جب بیدار ہوتے ہیں توسب سے قبل اپنے ڈاڑھی مونڈتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا کا پیار ا عمل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ “ڈاڑھی میں ہمیشہ فرشتے جھومتے رہتے ہیں” اور رسول اللہ نے فرمایا کہ بے شک اللہ کے کچھ فرشتے ہیں جن کی تسبیح یہ ہے سبحان اللہ من زین الرجل باللحئی وزین النسائ بالزوائب اور ہدایہ شریف میں ہے کہ حلق اللحیۃ مثلۃ ترجمہ ڈاڑھی کا مونڈ نا مثلہ ہے اور اسکی شرح میں عینی شارح ہدایہ شریف نے لکھا کہ والمثلۃ حرام  کہ مثلہ حرام ہے نتیجہ کہ داڑھی مونڈانا حرام ہے ۔اب آپ ہی جائزہ لیجئے کہ صحابی کرم صبح میں رسول  کی دیدار کیلئے ترپتے تھے مگر آج کے مسلم نوجوان ڈاڑھی مونڈنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اور ایک جانب یہ کہ جب اپنے پیڑ پر کھڑے ہوجاتے ہے تو والدین کو گھر سے نکال دیتے جس عظیم ہستی کے بارے میں خدائے تعالی نے فرمایا  ﴿ولا تقل لہما اف ولا تنہر ہما وقل لہما قولا کریما﴾ اور  رسول نے فرمایا الجنۃ تحت اقدام امہات (بخاری ) ترجمہ ماں کے تلوے تلے جنت ہے آپ ہی اندازہ لگائے کہ ہمارے معاشرہ کتنا بگڑ چکی ہے اور رسول کی سیرت کی کتنی ضرورت ہے۔

ایک چیز جو ہمارے سماج کے لیئے اشد حاجت ہے جس کے بغیر دنیا کی معرفت ہوگی اورنہ ہی خوف خدا کا احساس ہوگا کیونکہ  جب ہمیں علم ہوگا تب ہی خدا کی معرفت ہوگی جس کی شان خدا تبارک وتعالی نے بیان کیا ﴿یرفع اللہ الذین امنو منکم والذین  اوتوا  العلم درجات﴾ اور خوف خدا کے لیئے علم لازمی ہے کیونکہ خود فرماتا ہے ﴿انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء﴾   ترجمہ خدا سے ڈرنے والے محض علمائے کرام ہیں تو ظاہر ہو گیا کہ خوف کے لیئے علم ہونا ضروری ہے کیونکہ جب ہمیں علم ہوگاتب ہی خدا کی معرفت کی پہچان ہوگی اورخدا کے خوف اور حب رسول کی جلن بڑھے گی۔

             اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم امت مسلمہ کو قرآن کریم سے جوڑ یں ۔وہ اسے یاد کرے اسکی تلاوت کرے اور اسے سمجھے ۔ضروری ہے کہ اسلامی معاشرہ ازسر نو قران کریم سے گہرا اور پر جوش تعلق قائم کرے۔پھر معاشرے کو حضرت محمد ﷺکی سیرت طیبہ سے واقفیت بہم  پہنچائی جائے اور لوگوں کو اسے جوڑا جائے ۔ محض اسی کے ذریعہ اسلامی معاشرے اور اسلامی تشخص کی حفاظت کا عظیم ہدف پورا کیا جا سکتا ہے ۔اس لیئے کہ انسان کو جب نبی ﷺ کے احوال کا علم ہوگا تو وہ اپنی جان سے زیادہ آپ ﷺ سے عشق ومحبت کرے گا ۔ کیوں کہ اسے معلوم ہوگا کہ اپ ﷺنے امت کے لیئے کیسی کیسی قربانیاں دی ہیں اور کتنی جدوجہد کی ہے ۔اسی طرح ہم امت مسلمہ کی ثقافت کی حفاظت کرسکیں گے۔ اور یہ بھی ضرورت ہے کہ تعلیمی اداروں کانصاب تعلیم اس طرح تیار کیا جائے کہ اس کے ذریعہ اسلامی ثقافت کا تعارف کرایا جائے اور اسلامی اقدار کو ذہنوں میں راسخ کیا جائے ۔کیونکہ آج بھی اگر امت مسلمہ صحابہ کرام کی سنت پر چلتی ہوئے ذ۱ت مصطفی کے ساتھ عشق ومحبت اور ادب تعظیم کا تعلق مضبوط و مستحکم تر کرلے تو پھر یہ دوبارہ ایک ناقابل تسخیر قوت بن سکتی ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ہے۔

Source link

Exit mobile version