آج فروری 19 تاریخ ہے اس دن کو تاریخ ملیبار میں کافی اہمیت حاصل ہے اس لئے کہ سن 1989 فروری 19 بروز اتوار کو سامودھری ہائی اسکول کالیکٹ میں علماء وصوفیہ کی موجودگی میں سنی طلبہ کی تنظیم تشکیل دی گئی تھی اس جلسے کی صدارت استاذ العلماء علامہ کے کے ابوبکر مسلیار سابق صدر سمستا کیرالا جمعیۃ العلماء نے کی اس تنظیم کو یس کے یس یس یف (سمستا کیندریا سنی اسٹوڈنٹس فیڈریشن) نام حضرت علامہ صوفی باصفا سی یچ عیدروس مسلیار نے نامزد کیا اس کے علاوہ اس مبارک جلسے میں طلبہ کی دینی وملی ذمہ داری کے متعلق مفسر قرآن حضرت علامہ ومولانا کے وی محمد مسلیار کوٹناڈ نے افتتاحی خطاب فرمایا تھا۔اس کے علاوہ کثیر تعداد میں علماء وصوفیہ اور سادات کرام شامل بزم رہے اس تنظیم کے تین اہم مقاصد ہیں 1) تعلیم 2) تواضع(خاکساری وانکساری) 3) خدمت خلق
الحمدللہ آج تقریباً اس تنظیم کو ۳۳ سال ہوچکے ہیں اس طویل مدت میں زمانے کے گردشوں کے باوجود آج بھی اپنے مقاصد کے حصول کی راہ پہ گامزن ہے مقصد سے ہٹ کر کبھی کام نہیں کیا۔ ہمیشہ امت کی ترقی و عروج کی فکر لیکر پیش قدمی کرتی رہی ہے اسی وجہ سے آج ریاست کے حدود کو پار کرکے قومی سطح پر یہ تنظیم کام کررہی ہے ہندوستان کے بیشتر ریاستوں میں اس تنظیم کے کارکنان ہیں اور باقاعدہ کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں اور الحمدللہ دین و ملت کی خدمت میں سرگرم عمل ہے اس تنظیم کے ماتحت 18 سے زائد ذیلی شعبہ جات ہیں جن میں مندرجہ ذیل شاخیں قابل ذکر ہیں
۱) استقامہ (برائے تحفظ عقائد اہل سنت)
۲) وقایہ رضاکاران (برائے خدمت خلق )
۳) ٹرینڈ (برائے اعلیٰ تعلیم)
۴) سہاچاری (برائے امداد غریب ونادار مریض)
۵) کیمپس ونگ (اسکول وکالجز اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ کی انجمن)
جب اس تنظیم کا پچیسواں واں سالانہ جشن منایا جارہا تھا اس وقت شہزادۂ رسول ﷺ اولاد علی گل گلزار حسینیت حضرت علامہ سید عباس علی شہاب باعلوی حسینی مدظلہ العالی نے اس امت کے سامنے خدمت خلق کے ہمیشہ کوشاں رہنے والے پچیس ہزار وقایہ رضاکاران کو پیش کیا۔ آج الحمدللہ اس کی تعداد ایک لاکھ سے بھی بڑچکی ہے وقایہ رضاکاران کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دنیوی مقصد سے بالاتر ہوکر نام ونمود اور دیکھاوا سے دور ونفور ہوکر کام کرتے ہیں مجھے یہ کہنے پر فخر محسوس ہورہا ہے کہ جب کرونا وائرس کے وقت سب تنظیمیں گھر بیٹھ کر آرام کررہی تھیں۔ اس وقت یس کے یس یس یف کے وقایہ رضاکاران زمینی سطح پر کام کررہے تھے اتنا ہی نہیں کرونا وبا سے فوت ہونے والے افراد کی ان کے مذہب ودھرم کے رسم ورواج کے مطابق کفن دفن کرنے کا گراں قدر خدمات انجام دیتے رہے جب انسان انسان کا دشمن بن چکا تھا ایک انسان دوسرے انسان کی میت کو ہاتھ لگانے سے گھبراتا تھا وقت وقایہ رضاکاران نے انسانیت کو سہارا دیا اور تنظیم سے ملی ہوئی تربیت وٹریننگ کا بھرپور استعمال کرکے خلق خدا کی خدمت کی-لہذا جملہ قارئین سے مخلصانہ گزارش ہے کہ آپ بھی اس تنظیم سے جڑ کر کام کرنے کی کوشش کریں اس امت کی تخلیق کا ایک سبب خدمت خلق اور خیرسگالی ہے جیسے کہ قرآن کہتا ہے اے مسلمانو! تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی خدمت کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو (آل عمران :110) اس کے علاوہ قرآن نے سماجی خدمت کے حوالے سے بھی کافی اچھا نظریہ پیش کیا قرآن کہتا ہے اور تم فرما ؤ: تم عمل کرو ،اب اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان تمہارے کام دیکھیں گے اور جلد ہی تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے جوہر غیب اور ظاہر کو جاننے والاہے پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال بتائے گا۔(توبہ:105)حضور حافظ ملت فرمایا کرتے تھے زمین کے اوپر کام زمین کے نیچے آرام اور سماجی کام کرتے وقت ناموری و شہرت کا تقاضا نہ کریں ہر سماجی خدمت کے پیچھے خلوص وللہیت کارفرما ہو تو اللہ ثواب بھی عطا کریگا اور نام بھی اسی وجہ سے حافظ ملت کہتے تھے کام کرو نام ہوہی جائیگا اللہ تعالی ہم سب کو خلوص وللہیت کے ساتھ خدمت خلق خدا کرنے کی توفیق رفیق عنایت فرمائے آمین