Site icon Islamicus

تصوف کے ارتقا میں خواتین کا کردار (قسط ١)



تصوف کے ارتقا میں جس طرح مردصوفیہ کی خدمات ہیں اسی طرح خواتین صوفیہ کی بھی اہم خدمات رہی ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ خواتین صوفیہ کی خدمات کو تحریر نہیں کیا گیا۔تصوف کے تذکرہ نگاروں نے بالعموم مرد صوفیہ کے احوال لکھے ہیں۔خواتین صوفیہ کی طرف ان کی توجہ بہت کم رہی ہے۔ اس کے مختلف اسباب ہیں۔ان میں ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ تذکرہ نگاروں کی رسائی درون خانہ تک نہیں ہو پاتی۔ اس لیے صوفی خواتین کے احوال تذکرہ نگاروں کی نظر سے مخفی رہے۔اگر کہیں کسی صوفی خاتون کا تذکرہ مل جاتا ہے تو اس کو مردوں کے تذکرے میں ہی شامل کر لیا جاتا ہے الگ سے سے مستقل کوئی تذکرہ نہیں لکھا جاتا۔

 صوفی خواتین کا ذکرجب بھی ہو تا ہے تو صرف حضرت رابعہ بصریہ کا نام لیا جاتا ہے۔ان کے علاوہ کسی صوفی خاتون کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ تاریخ اسلامی میں اور بھی بہت سی صوفی خواتین گذریں ہیں او ربعض تذکرہ نگاروں نے اپنی کتابوں میںصوفی خواتین کا ذکر کیا ہے کہیں مستقل، کہیں کسی کے ضمن میں۔ ابو عبد الرحمن سلمی کی کتاب ذکر النسوة الصوفیات المتعبدات تو ایسی کتاب ہے جس میں صرف صوفی خواتین ہی کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب کے علاوہ علامہ ابن الجوزی نے صفة الصفوة میں علامہ جامی نے نفحات الانس میں اور دارا شکوہ نے سکینة الاولیا ءمتعدد صوفی خواتین کا تذکرہ کیا ہے۔در اصل جب صوفی خواتین کا ذکر آتاہے تو حضرت رابعہ کے نام اکتفا کرلیا جاتا ہے دوسرے ناموں کی تلاش ہی نہیں ہو تی اس لیے لوگ ان واقف بھی نہیں ہو پا تے ورنہ عالم اسلام کا تو ذکر کیا، خود ہمارے ملک میں ایسی خواتین کی قابل ذکر تعداد ہے جو تصوف کے سلسلے سے وابستہ رہی ہیں۔ 

حضرت رابعہ بصریہؒ کے علاوہ جو مشہور صوفی خواتین گذریں ہیں ان میں ایک نام لبابہ المتعبدہ کاہے۔ محمد بن روح ؒنے ان کی روایات نقل کی ہیں۔ بیت المقدس کے جوار میں رہائش پذیر رہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کی محبت پیدا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اس کا ذوق پیدا کرتی ہے اور اس کا شوق اس سے انس پیدا کرتا ہے اور اس سے انس اس کی خدمت اور فرماںبرداری پر دوام عطا کرتا ہے۔ایک اور اہم صوفی خاتون مومنة بنت بہلولؒ ہوئی ہیں ان کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ عظیم عابدات میں سے تھیں۔ ان سے ایک مرتبہ دریافت کیا گیا کہ تم نے یہ مقامات کیسے حاصل کیے؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ کے احکام کی اتباع، سنت رسول کی پیروی اور مسلمانوں کے حقوق کی تعظیم اور نیک مسلمانوں کی خدمت کے ذریعے ۔

رابعہ بصریہؒ کی معاصر مریم البصریہ تھیں جو رابعہ کے بعد بھی زندہ رہیں۔ فرماتی تھیں کہ جب سے میں نے سنا ہے کہ:

اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔(الذاریات:22(

تب سے میں نے نہ رزق کی فکر کی اورنہ اس کی طلب میں پریشان ہوئی۔ ان کے بارے میں السلمی نے لکھا ہے کہ محبت الٰہی میں ایسی سرشار تھیں، کہ ایک دفعہ ایک واعظ محبت الٰہی کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے اس کو سن کر ان کا پتّا پھٹ گیا اور وہ فوت ہو گئیں۔اسی عہد کی ایک صوفی خاتون شبکة البصریة بھی ہوئی ہیںوہؒ فرماتی تھیں کہ ریاضتوں کے ذریعے اپنے نفس کو پاک کرلو، جب نفس پاک ہو جائے گا تو عبادت میں ذوق و شوق پیدا ہو جائے گا۔

رابعہ بصریہؒ کی ہم عصر اور انھی کے پایے کی ایک صوفی خاتون معاذہ بنت عبد اللہ العدویہؒ تھیں۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ روایت میں ہے کہ انھوں نے چالیس سال تک اپنی آنکھیں آسمان کی طرف نہیں اٹھائیں۔ معاذہ بہت مشہور صوفی خاتون تھیںان کا تذکرہ بہت سے تذکرہ نگاروںنے کیا ہے۔ طبقات ابن سعد میں بھی ان کا ذکر ہے اور یحیٰ بن معینؒ نے ان کو ثقہ رواة میں شمار کیا ہے۔ وہ مشہور تابعی صلہ بن اشیم العدویؒ کی اہلیہ تھیں۔ (سیر اعلام النبلاءجلد4،ص:509) ابو عبد الرحمن السلمیؒ نے ان کو رابعہ کی ہم پلہ اوران کی دوستوں میں لکھا ہے۔

بصرہ میں صالح المری ؒکے عہد میں ایک اور بزرگ خاتون کا تذکرہ ملتا ہے۔ جن کا نام ریحانة الوالھتہؒ تھا۔السلمی نے ان کے کچھ عارفانہ اشعار نقل کیے ہیں۔

یوسف بن اسباط ؒکی بیوی نُسیہ بنت سیلانؒ بھی ایک مشہور خاتون تھیں۔ ان کا ایک مقولہ سلمی نے نقل کیا ہے کہ: انھوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ” اللہ تعالیٰ تم سے میرے بارے میں سوال کرے گا۔ اس لیے مجھے سوائے حلال کے کچھ مت کھلانا اور میری وجہ سے کوئی مشتبہ چیز حاصل کرنے کی کوشش نہ کرنا۔“

عافیہ المشتاقةؒ قبیلہ بنی عبد القیس سے تعلق رکھتی تھیں۔ بصرہ کی رہنے والی تھیں۔ کثرت سے ذکر کرتیں۔ رات میں جاگتیں ، دن میں قبرستان میں جاتیں اور کہتیں: محبت کرنے والے اپنے محبوب سے مناجات سے نہیں تھکتے اور نہ کسی اور کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

شام کے محدث حافظ ا سمعیل بن عیاشؒ کی والدہ جن کا ذکر اوپر آیا ہے ان کے بارے میں ان کے پوتے محمد بن اسماعیلؒ سے روایت ہے کہ میرے والد نے فرمایا کہ ان کی والدہ فرماتی تھیں کہ” اگر مجھ کو یہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ضرور جنت میں داخل کر دے گا تب بھی میں زیادہ سے زیادہ عبادت و اطاعت کرنے کی کوشش کروں گی“۔

رئیسہ بنت عمر و العدویہؒ بصرہ کی رہنے والی تھیں اور معاذہ العدویہؒ کی شاگرد تھیں۔ فرماتی تھیں کہ عمل کے درست ہونے کے لیے اس کے ساتھ تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اخلاص نیت ہو، عمل درست طریقے پر ہواورسنت کے موافق ہو۔

ام الاسود بنت زید العدویہؒ ایک عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں۔ معاذہ العدویہ ؒنے ان کو دودھ پلایا تھا۔ حضرت معاذہؒ نے ان کو نصیحت کی کہ حرام کھا کر میرے دودھ پلانے کو خراب مت کرنا۔ وہ فرماتی تھیں کہ میں نے اس کے بعد حلال رزق کے حصول کے لیے حتی الوسع جدو جہد کی اور اگر کبھی میں نے کوئی مشکوک نوالہ کھالیا تو پھر یا تو میرا کوئی فریضہ چھوٹ گیا یا کوئی ورد چھوٹ گیا۔

حضرت شعوانہؒ ایک عظیم صوفی اور عابدہ خاتون تھیں۔ اُبلہ(ایک شہرکانام) میں اکثر آتی تھیں، آواز بہت اچھی تھی لوگوں کو وعظ کہا کرتی تھیں۔ عابد ، زاہد اور ارباب القلوب ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ وہ بہت رونے والی اور محنت و مجاہدہ کرنے والی تھیں۔ ابو عون کہتے ہیں کہ :شعوانہؒ ایک دفعہ اتنی روئیں کہ ہم کو ان کے اندھے ہو جانے کا اندیشہ ہوا۔ ہم نے ان سے کہا کہ: ہمیں ڈر ہے کہ آپ اندھی نہ ہو جائیں تووہ اور روئیں اور کہا کہ: بخدا دنیا میں اندھا ہونا مجھے آخرت میں اندھے ہونے کے مقابلے میں بہت پسند ہے۔



Source link

Exit mobile version