Site icon Islamicus

سمناں سے ہند تک: حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض کی جلوہ باریاں



سمناں سے ہند تک: حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض کی جلوہ باریاں

 اسلامی تاریخ کے اَوراق ایسے اَن گِنَت واقعات وشخصیات کے ذکر سے جگمگا رہے ہیں جن سے اشاعتِ دین کے کارواں کو تقویت ملی۔ ایسی لازوال شخصیات کے کارنامے آج بھی تاریخِ اسلامی کے ماتھے کاجھوٗمر ہیں جن کی مساعیِ جمیلہ سے دلوں کی تاریک دنیا میں تاریخی انقلاب آیا۔ دل و دماغ روشن ہوئے اور فکر کی کھیتی ہری بھری ہو گئی۔ ایسی ہی نادرِ زمن ہستیوں میں سمناں کے تاج دار وارثِ مملکتِ خداداد حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃاللہ علیہ ہیں۔ آپ سمناں کے تاج ور تھے ہی ساتھ ہی صحیح النسب سادات یعنی خاندانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم و چراغ تھے۔والد ماجد کانام محمدابراہیم تھاجو باوصف تاج دار بڑے نیک وتہجد گزار تھے۔ دن کے مجاہد وشب کے عابد تھے۔ والدہ ماجدہ خدیجہ بیگم (بنت خواجہ احمد یسوح) ’’صائم الدہر‘‘ اور ’’قائم اللیل‘‘ تھیں۔شاہانہ طرزِ زندگی، آسائشوں کے انبار، شوکت و عزت سبھی کچھ ہونے کے باوجود عظیم والدین کی تربیت نے دُنیا میں رہ کر دُنیاداری سے دور رکھا۔ یہی مومن کی شانِ بے نیازی ہوتی ہے کہ اسے تخت وتاج، مال ومنال، شوکت و قوت ومادیت متاثر نہیں کر سکتے۔ مخدوم پاک کے یہاں سب کچھ تھا لیکن وہ تو مردِحق آگاہ تھے؛ اسی لیے جس کے پیچھے سبھی بھاگتے ہیں وہ ان سب کو پاکر بھی متاثر نہ ہوئے اور روحانی عظمتوں کی منازلِ شوق بہ ذوق طے کرتے رہے۔

    باضابطہ علومِ دینیہ حاصل کیے۔ عمر کی ساتویں منزل میں ہی قرآن مقدس مع قرأت سبعہ حفظ کر لیا۔ سمناں ونواح کے دینی مراکز سے علمی تشنگی بجھائی۔ معقولات ومنقولات میں مہارتِ تامہ پیدا کی۔ حرفاً حرفاً اور سبقاً سبقاً علم دین سیکھا اور کمال حاصل کیا۔والد ماجد کے وصال کے بعد تاج ور ہوئے لیکن انھیں توروحانی تاج دار بننا تھا،ایک شب خواب دیکھا کہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں، کہتے ہیں کہ ’’سلطنتِ الٰہی چاہتے ہو تو بادشاہت کو خیر باد کہہ کر رختِ سفر جانبِ ہند باندھ لو۔‘‘ والدہ کو حال سُنایا، اجازتِ سیاحتِ ہند ملی۔ یوں سلطنت کو ٹھکرادیا۔ راہِ خدا میں سیاحت کو گلے لگایا۔ یہاں سے روحانی مدارج میں مسلسل ترقی کا مرحلۂ عرفان طے ہونا شروع ہوا۔

    سیادت و سلطنت کا یہ امیں جب رُخصت ہونے کو آیا توسمناں سے بارہ ہزار سپاہی الوداع کو ساتھ ہولیے، جنھیں تین منزلوں پرہی رُخصت فرمادیا۔اسباب ساتھ تھے جنھیں آگے جاکر فقرا میں تقسیم فرمادیا۔ سمرقند گئے پھراوچ میں قیام پذیر ہوئے۔ جہاں حضرت سید جلال الدین بخاری جہاں گشت کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھتے ہی آپ نے مخدوم پاک سے فرمایا:

’’عرصے کے بعد دماغ کو طالبِ صادق کی خوش بو نصیب ہوئی، مدت کے بعد چمنِ سیادت سے نسیمِ خراماں ہوئی۔ مبارک ہو! بے حد جسور فرزندآیا ہے جلدی کیجیے۔ میرے بھائی ’’علاؤالدین‘‘آپ کے منتظر ہیں، راہ میں توقف نہ کیجیے۔‘‘

    اخذِ فیض کے بعد آپ منزل بہ منزل ہوتے ہوئے دہلی آئے، پھر عازمِ بہار ہوئے، جہاں حضرت مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری رحمۃاللہ علیہ کاجنازہ پڑھایا،پھر بنگال کی راہ لی۔ اس زمانے میں پنڈوہ بنگال میں حضرت ’’علاؤالدین‘‘ عبدالحق لاہوری کے علم و عرفان کا بڑا چرچا تھا، جن کی فیض رساں بارگاہ سے علاقۂ بنگال اسلامی تعلیمات سے جگمگا رہاتھا، اور آپ کی ایک نگاہِ کیمیا اثر سے ہزاروں دل نورِایمان سے روشن ہواُٹھے تھے،آپ عرصہ سے منتظر تھے، انتظار کس کا تھا یہ اس وقت کھلا جب مخدوم پاک آپ کی بارگاہ میں پہنچے اور روحانی امانتوں کے امین ہوئے۔شیخ نے نگاہ ڈالی اور مقاماتِ معرفت کے اس عظیم منصب پر پہنچا دیا جہاں نگاہوں سے پردے اُٹھ جاتے ہیں اور نظارۂ انوار وعرفان نگاہوں کا محور ٹھہرتا ہے۔بیعت کی سعادت حاصل کی،۱۲؍سال خدمتِ مرشد میں رہے،خرقۂ خلافت اور جہانگیر کا لقب پایا، مرشد نے خود روحانی تربیت کی۔ علامہ مشتاق احمد نظامی لکھتے ہیں:

    ایک دن آپ(مخدوم پاک) کمر باندھ رہے تھے۔ مرشد نے پوچھا: ’’کیا کررہے ہو؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’خدمتِ خلق کے لیے کمر کس رہا ہوں۔‘‘ مرشد نے فرمایا:’’اگر می بندی محکم بہ بند کہ ہیچ درمیاں نداری۔‘‘(اگر کمر کس رہے ہو تو مضبوطی سے کسو تاکہ پھر کوئی چیز درمیان میں نہ رہے) آپ نے فرمایا:’’آرزوئے نفس از میاں بیروں کشیدم تازندہ۔‘‘(جب تک زندہ ہوں نفس کی آرزوؤں کو دور ہی رکھوں گا)

    مرشد کی اجازت سے سیاحت کے اگلے دور کا آغاز کیا۔ دلوں کی صفائی اور ستھرائی فرماتے رہے۔ جون پور گئے، محمد آباد گہنہ گئے، نواحِ اودھ میں بھی دین کی اشاعت کی۔ وہ دور ایسا تھا کہ سحر وجادو کے ذریعے شرک و کفر کو رواج دیا جارہا تھا، ایسے عالم میں زمانی ضرورت کے تحت آپ نے کرامتوں کا اظہار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں افراد حلقہ بگوش اسلام ہوئے، کچھوچھہ مقدسہ میں آپ نے سکونت اختیار کی۔پھر سیاحت کا دوسرا دور شروع ہوا۔ سیاحت کے ذریعے اسلام کی اشاعت کرنے والوں نے نئی تاریخ رقم کی ہے اور عزم و حوصلہ دیا ہے، اس سفر میں حرمین، دمشق، نجف اشرف، کربلا، سمنان، ماوراء النہر، ترکستان، قندھار، غزنی، کابل، ملتان، اجودھن،دہلی، اجمیر، دکن،گجرات ہوتے ہوئے کچھوچھہ مقدسہ آئے۔ اس سیاحت میں اکابر اولیائے کرام سے فیض لیا، طالبین راہِ طریقت و معرفت کو فیض دیا،کفر کی وادیوں میں بھٹکنے والے کتنے ہی افراد کو حق آشنا کیا۔

    دورانِ سکونت کچھوچھہ مقدسہ کتنے ہی اصحابِ اقتدارکی اصلاح کی اور انھیں توبہ کی طرف مائل کیا۔ آپ سچے عاشق رسول تھے، جس کا اندازہ لطائف اشرفی کے مطالعہ سے ہوتا ہے، آپ کے ان ملفوظات سے شریعتِ مطہرہ پر استقامت کا جلوہ بھی سامنے آتا ہے، آج افسوس کی بات ہے کہ ولیوں سے نسبت کا دعویٰ کرنے والے بعض حلقے شریعت سے انحراف کے مرتکب ہورہے ہیں اور بعض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کے بے ادب و گستاخ بھی، انھیں مخدوم پاک کی حیاتِ مبارکہ سے درس لینا چاہیے کہ آپ کا کوئی لمحہ جادۂ شریعت سے بال برابر منحرف نہ ہوا۔ آپ کے یہاں شریعت پر استقامت کے بعد ہی طریقت کی منزل کا پتا ملتا ہے، اسی درس کو گزری صدیوں میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ فضل حق خیرآبادی، اعلیٰ حضرت محدث بریلوی،شیخ المشائخ اشرفی میاں کچھوچھوی، مفتی اعظم ہند نوری نے دیا،انھیں کے مشن کو اپنانا مخدوم پاک سے محبت و نسبت کا تقاضا ہے اور اسی کی اس عہدِ قحط الرجال میں ہمیں ضرورت ہے۔ بقول اعلیٰ حضرت ؎

ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سُراغ لے کے چلے



Source link

Exit mobile version