سید عبد الرحمن باعلوی ورکل ملا کویا تنگل یمنی علیہ الرحمہ: حیات و خدمات
آج بتاريخ 17 شعبان “سمستا کیرالا جمعیۃ العلماء” کے بانی و صدرِ اوّل آلِ رسول سید عبدالرحمن باعلوی ورکّل ملاکویا تھنگل رحمۃ اللہ علیہ کا یوم وصال ہے۔
سن 1926 میں “سمستا” کے قیام سے لے کر 16 دسمبر سن 1932 کو اپنی وفات تک، سید عبدالرحمن ورکل ملاکویا تنگل رحمۃ اللہ علیہ (1840-1932) اس عظیم الشان تحریک کے صدر رہے۔
حضرموت، یمن سے تبلیغ اسلام کی خاطر سرزمینِ کیرالا کی طرف کثیر تعداد میں آل رسول تشریف لائے اور یہیں سکونت اختیار کی- ان ہی میں سے ایک تھے سید حامد با علوی علیہ الرحمہ، سید ورکل ملا کویا تنگل آپ ہی کے سلسلہ نسب سے تھے۔ سرزمینِ ملبار میں آپ کے جد امجد کی آمد چار صدیاں قبل ہوئی۔ آپ کی رہائش شہر کوزی کوڈ (کالیکٹ) کے باشندوں کی طرف سے ہبہ کی گئی ایک بڑی اراضی پر بنائے گئے مکان میں تھی۔ سید ورکل ملا کویا تنگل علیہ الرحمہ ولادت سے ہی عظیم شخصیت کے حامل تھے۔
حضرت کی ولادت دوپہر کے وقت ہوئی۔ وقتِ ولادت گھر و اطراف اور پاس مسجد میں کثیر تعداد میں لوگوں کا ہجوم موجود تھا جس میں علماء و فضلاء اور سادات بھی شامل تھے۔ اس وقت کُنّنتھ کویاٹی حاجی نیلگوں آسمان کی طرف تو آپ کو ایک عجیب منظر نظر آیا- آپ نے دیکھا کہ وقت دوپہر کا ہے اور آسمان پر ایک ستارہ جگمگارہا ہے۔ سب کو اطلاع دی گئی اور یہ منظر دکھایا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب وہاں موجود لوگوں نے کیرالا کی سرزمین پر ایک نئے دور کا آغاز کرنے والی اس عظیم شخصیت ورکل ملا کویا تنگل کی ولادت کی خبر سنی۔ “سمستا” کے سابق جنرل سیکرٹری اور مسلمانانِ کیرالا کے روح رواں ولی اللہ، شمس العلماء استاذ ای کے ابوبکر مسلیار علیہ الرحمہ جیسے عظیم اکابر اکثر اس واقعہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔
سید ورکل ملا کویا باعلوی تنگل علیہ الرحمہ نے اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے چچا سید احمد باعلوی تنگل علیہ الرحمہ کی بیٹی یعنی اپنی عم زادہ سیدہ شریفہ زینب کویامّا بیوی سے شادی کی۔ اپنی پہلی بیوی کی وفات کے بعد، آل سادات کے قبیلہ “السقاف” سے تعلق رکھنے والے سید عیدروس کویا تنگل کی چھوٹی بہن “چیریہ بیوی” سے شادی کی۔ لیکن دونوں بیویوں سے آپ کو کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ معروف عالم دین، صوفی بزرگ اور شاعر حضرت ابوبکر کنجی قاضی رحمہ اللہ آپ کے استاد تھے۔ سید علی عطاس مدنی اور عبداللہ المغربی بھی آپ کے اساتذہ میں سے ہیں۔
برسوں سے ویران پڑے اس غیر معروف دیارِ “وَرَکَّلْ” مقام کو آپ نے اپنے وجودِ عظمت نشان سے معروف و گنجان بنا دیا- آپ کے قدومِ میمنت لزوم سے یہاں نئے مکانات کی تعمیر اور کاروبار کی دھوم دھام ہونے لگی- اور اسی وجہ سے اس علاقے کا نام “پُتھِینگاڈی” (نیا بازار) پڑ گیا- لوگ دور دراز مقامات سے ریل گاڑیوں کے ذریعے “ورکل” آیا کرتے تھے- آج کا “ویسٹ ہل” ریلوے اسٹیشن اس وقت “ورکّل” کے نام سے ہی جانا جاتا تھا- اور اسی نسبت سے آپ علیہ الرحمہ بھی عوام الناس کے بیچ “وَرَکَّلْ تَنْگَلْ” کے نام سے مشہور و معروف ہوئے –
کثیر تعداد میں لوگ دور دراز علاقوں سے یہاں روحانی و عرفانی کسبِ فیض کے لیے جوق دو جوق آنے لگے- “ورکّل خاندان” کو لوگوں نے اپنے مسائل کا حل نکالنے، پریشانیوں اور بلاؤں سے چھٹکارا پانے نیز اپنے دکھوں اور دردوں کا مداوا کرنے والی جگہ مان لیا تھا- آل رسول “ورکّل سادات” نے اپنے وابستگان کی روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ انسانی و اخلاقی تربیت بھی کی جس سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدلتی اور بہتر ہوتی نظر آئی- اس دور کے برطانوی (انگریز) افسران بھی مسلم مسائل کے حل کے لیے آپ سے رابطہ کرتے اور آپ کی رائے پوچھتے تھے اور بعدہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا جاتا تھا-
آپ علیہ الرحمہ عربی، اردو اور فارسی جیسی زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے- “کَنُّور” کے شاہی خاندان “اَرَکَّل” سے گہرے مراسم تھے- آپ علیہ الرحمہ ہی “ارکّل” خاندان کے محل میں ہونے والی مذہبی تقریبات کی قیادت کرتے تھے- ملکِ ہندوستان کے اندرونی و بیرونی ممالک کے راجاؤں کو مختلف زبانوں میں مکتوبات لکھ کر بھجوانے نیز “ارکّل” خاندان کے ماتحت محلات کی رہنمائی اور قضائت جیسے اہم کام آپ علیہ الرحمہ کے ہی سپرد کیے گئے تھے-
اسی دوران، سن 1921 میں “ملبار بغاوت” میں جلاوطنی کے بعد کوڈنگلور میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے چند مسلم اسکالرز نے “کیرالا مسلم ایکیہ سنگم (یونائیٹڈ یونین)” نامی ایک فتنہ پرور تحریک کی بنیاد ڈالی- اس کے ذریعے ہمارے اسلاف کی بتائی گئی روایات اور عقائد کو مسترد کرنے کی مذموم کوششیں کی جانے لگی، ہماری بھولی بھالی عوام کو اپنے غلط نظریات بتا کر بہکایا جانے لگا- ایسا کرنا ان کی طرف سے ہمارے سنی عقائد پر سوالیہ نشان کھڑا کرنے اور ہماری دیرینہ و پارینہ روایات کو تباہ کرنے کی گھناؤنی سازش تھی-
لہٰذا ان کا رد کرنے کے لیے، دین متین کی شناخت کو بچانے اور اس کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے دور دراز سے علمائے کرام و سادات عظام نے تگ و دو شروع کردی اور یہ عزم کیا کہ کسی بھی قیمت پر اس نئے فتنے کا سر کچلنا ہی ہوگا۔ علمائے کرام کی ایسی ہی کوششوں کے درمیان ایک اجلاس میں جمعیۃ علماء بنائے جانے کا چرچہ بھی ہوا – سنی علمائے کرام کو خبردار ہوتا دیکھ کر انہوں نے اپنی صفائی پیش کی اور وقتی طور پر رک گئے-
لیکن پھر سن 1924 میں انہوں نے دوبارہ اپنے مذموم نظریات و عقائد نیز محمد بن عبد الوهاب نجدی اور ابن تیمیہ کے افکار کو پھیلانا شروع کیا، تو ان کے رد میں اور اہل سنت و جماعت کے دفاع میں سید ورکل ملا کویا تنگل نے اس وقت کے جید علمائے کرام و صوفیائے عظام کو “پتھینگاڈی” میں مدعو کیا جن میں پانگل احمد کٹی مسلیار علیہ الرحمہ، عبدالباری مسلیار علیہ الرحمہ وغیرہ بھی شامل تھے اور اس فتنے کی سرکوبی اور ان کے بنائے آلودہ ماحول کو پاک صاف کرنے کے تعلق سے تبادلہ خیال کیا گیا-
آخر کار سن 1926 کا وہ دن آیا جب کوزی کوڈ (کالیکٹ) ٹاؤن ہال میں سادات عظام و علمائے کرام کا ایک دوسرا اجلاس بلایا گیا اور “سمستا کیرالا جمعیۃ العلماء” نامی ایک علمی اور مذہبی تحریک کا آغاز ہوا جس میں سید ورکّل ملا کویا تنگل علیہ الرحمہ کو اس تحریک کا صدر منتخب کیا گیا۔ آپ نے سمستا کی تشکیل کے بعد چھ سال تک ترقی پسندانہ کاموں کی قیادت کی- سن 1932 بتاریخ 16 دسمبر (ھ: 1351 شعبان 17) کو آپ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی آخری آرام گاہ “ورکّل” مقام میں ہی مرجع خلائق ہے۔