Site icon Islamicus

ام المومنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا



ام المومنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا

 

 تاریخِ اسلام کی وہ عظیم القدر ہستیاں جن کے علم کے نور سے زمانہ آج بھی پر نور ہے وہ اپنے اعلیٰ اخلاق اور عمدہ اوصاف کی وجہ سے آج بھی اسی طرح زندہ وجاوید ہیں جیسے حیاتِ ظاہری میں تھیں،ان میں سے ایک بلند رتبہ ذات ام المومنین زوجہ حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی ہے۔امت کی اس عظیم ماں کو الله رب العزت نے اس قدر کثیر فضائل سے نوازا ہے جس کا احاطہ وشمار ممکن نہیں۔ایک یہی فضیلت کیا کم ہے کہ آپ رضی الله عنہا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سب سے محبوب زوجہ مطہرہ ہیں مزید یہ کہ آپ رضی الله عنہا کی پاک دامنی کی گواہی خود الله رب العزت نے دی اور اس کے لیے قرآنِ مجید کی 18 آیات نازل فرمائیں۔

آپ کو حضرتِ سیدنا جبریل امین علیہ السلام نے سلام کہا۔آپ کے بستر اقدس میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی۔آپ ہی کے حجرہ اقدس میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دنیا سے ظاہری پردہ فرمایا۔یہیں حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کا مزار اقدس بنا اور قیامت تک یہ مزار مبارک فرشتوں کے جھرمٹ میں گھرا رہے گا۔حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت ورسالت کا اعلان فرمایا اور لوگوں کو بتوں کی پوجا پاٹ سے کنارہ کش ہونے اور الله رب العزت کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو شرک وکفر میں پروان چڑھے لوگوں کی طبیعتوں پر یہ بات سخت ناگوار گزری اور وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے دشمن ہوگیے۔اس شر وفتنہ سے بھرپور دور میں کچھ حضرات ایسے بھی تھے جب ان تک حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے اعلان نبوت کی خبر پہنچی تو وہ بغیر کسی حیل وحجت کے آپ صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لا کر اسلام کے سایہ رحمت میں داخل ہو گئے ان میں سے ایک نمایاں نام امیر المومنین خلیفتہ المسلمین حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله عنہ کا ہے۔

دولتِ اسلام سے بہرہ ور ہوتے ہوئے آپ رضی الله عنہ نے تبلیغ دین کا آغاز فرما دیا اور آپ رضی الله عنہ کی دعوت کی بدولت بہت سے افراد مشرف بہ اسلام ہوکر اجلہ صحابہ رضی الله عنہم کی فہرست میں شامل ہوئے۔اعلان نبوت کے 10 ویں سال 10 رمضان المبارک کو جب حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی عمر تقریباً 06 برس تھی ام المومنین حضرت سیدتنا خدیجتہ الکبریٰ رضی الله عنہا کا انتقال ہو گیا ان کے انتقال سے تین دن پہلے ابو طالب بھی وفات پا چکے تھے۔ابوطالب اور حضرت سیدتنا خدیجتہ الکبریٰ رضی الله عنہا کی وفات کے بعد حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم بہت رنجیدہ و مغموم رہنے لگے،حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے قلبِ اقدس میں حضرتِ سیدتنا خدیجتہ الکبریٰ رضی الله عنہا کی جو قدر ومنزلت تھی صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین اسے جانتے تھے اس وجہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی افسردگی کی وجہ سے بھی بخوبی واقف تھے۔

ایک دن جلیل القدر صحابی حضرت سیدنا عثمان بن مظعون رضی الله عنہ کی زوجہ محترمہ حضرتِ سیدتنا خولہ بنت حکیم رضی الله عنہا بارگاہِ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں؛یارسول الله صلی الله علیہ وسلم میرا خیال ہے کہ حضرت خدیجہ کے نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو تنہائی نے آ لیا ہے؟فرمایا:ہاں!وہ میرے بچوں کی ماں اور گھر کی نگہبان تھی۔حضرت سیدتنا خولہ رضی الله عنہ نے عرض کیا:آپ شادی کیوں نہیں فرما لیتے؟استفسار فرمایا:کس سے؟ عرض کیا:اگر چاہیں تو باکرہ سے اور اگر چاہیں تو سیبہ سے۔ فرمایا:باکرہ کون ہے؟عرض کیا الله رب العزت کی مخلوق میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب شخص کی شہزادی عائشہ بنت ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ۔پھر فرمایا:سیبہ کون ہے؟عرض کیا:سودہ بنت زمعہ رضی الله عنہا وہ آپ صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائی ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے فرامین کی پیروی کرتی ہیں اس پر حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛جاؤ!دونوں کو میری طرف سے نکاح کا پیغام دے دو۔حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے اجازت پاکر حضرتِ سیدتنا خولہ بنت حکیم رضی الله عنہا حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے ہاں تشریف لے گئیں اور آپ رضی الله عنہا کی والدہ ماجدہ حضرتِ سیدتنا ام رومان رضی الله عنہا سے کہا؛اے ام رومان! الله رب العزت نے تم لوگوں کو کیا خوب خیر وبرکت عطا فرمائی ہے!حضرتِ ام رومان رضی الله عنہا نے پوچھا؛وہ کیا؟ کہا: مجھے حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے لیے نکاح کا پیغام دوں۔حضرتِ ام رومان رضی الله عنہا نے کہا آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کے آنے کا انتظار کیجئے۔جب حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله عنہ تشریف لائے تو صورتحال معلوم ہونے کے بعد آپ رضی الله عنہ نے فرمایا: کیا عائشہ کا حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم سے نکاح ہو سکتا ہے کیونکہ یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بھائی کی بیٹی ہے؟حضرتِ سیدتنا خولہ رضی الله عنہا نے بارگاہ رسالت مآب صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر حضرتِ صدیق اکبر رضی الله عنہ کا یہ سوال عرض کیا تو حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ابوبکر کے پاس لوٹ جاؤ اور اس سے کہو کہ میں تمہارا بھائی اور تم میرے بھائی اسلامی رشتے کے اعتبار سے ہو لہٰذا!تمہاری بیٹی کا نکاح مجھ سے ہو سکتا ہے۔حضرت سیدتنا خولہ رضی الله عنہا نے حضرتِ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کو بتایا اور پھر اُنہوں نے حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کر دیا۔اس طرح حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی زوجیت میں آکر امہات المومنین کی فہرست میں شامل ہوگئیں۔

حضرتِ سیدتنا خدیجتہ الکبریٰ رضی الله عنہا کی وفات کے چند ہفتوں بعد شوال المکرم کے مہینے میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے آپ رضی الله عنہا سے نکاح فرمایا تھا لیکن اس وقت رخصتی عمل میں نہیں آئی بلکہ رخصتی بعد میں ہوئی۔(مسند احمد،حدیث السیدتہ عائشہ رضی الله عنہا،جلد10صفحہ485 الحدیث: 26517سیرتِ سید الانبیاء، حصہ اول/ بعثتِ نبوی120) 

   ام المومنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی اور آپ اپنے والدین کے گھر میں ہی تھیں کہ ہجرتِ مدینہ کا واقعہ پیش آیا اور مسلمان حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے حکم سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے۔کچھ روز بعد حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم بھی حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله عنہ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ شریف تشریف لے آئے۔مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہونے کے کچھ عرصہ بعد حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کو مدینہ شریف لانے کے لئے حضرتِ زید بن حارثہ اور اپنے غلام حضرتِ ابو رافع رضی الله عنہما کو 500درہم اور دو اونٹ دے کر مکہ مکرمہ روانہ کیا حضرتِ سیدنا صدیقِ اکبر رضی الله عنہ نے بھی اپنی اہلیہ حضرتِ ام رومان رضی الله عنہا اور دو شہزادیوں حضرتِ عائشہ اور حضرتِ اسما رضی الله عنھن کو مدینہ شریف لانے کے لیے حضرتِ عبد الله بن اریقط رضی الله عنہ کو دو یا تین اونٹ دے کر ان کے ہمراہ کر دیا۔جب یہ حضرات حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت سیدتنا صدیقِ اکبر رضی الله عنہ کے اہل خانہ کو لے کر مدینہ شریف پہنچے ان دنوں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مسجدِ نبوی اور اس کے گرد حجروں کی تعمیر فرما رہے تھے پھر آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو انہیں حجرے میں ٹھرایا۔ مدینہ منورہ آنے کے کچھ عرصہ بعد ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا اپنے والدین کے پاس رہیں پھر ہجرت کے سات ماہ بعد شوال المکرم میں رخصت ہو کر کاشانہ نبوی میں داخل ہوئیں۔جب آپ رضی الله عنہا کاشانہ نبوی میں آئیں تو اس وقت آپ کی عمر شریف 09 سال تھی۔آپ رضی الله عنہا کے ساتھ آپ کے کھلونے بھی تھے اور آپ ان کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم بھی آپ رضی الله عنہا کی دل جوئی کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ام المومنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں: میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں جب حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم تشریف لاتے تو وہ اندر چھپ جاتیں آپ صلی الله علیہ وسلم انہیں میرے پاس بھیج دیتے اور وہ پھر میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔
        (صحیح البخاری،کتاب الادب،باب الانبساط الی الناس، صفحہ1521/ الحدیث: 6130)
   کاشانہ اقدس میں آنے کے بعد دن رات حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کے دیدار شریف اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت بابرکت سے فیضیاب ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کے چشمہ علم سے بھی خوب سیراب ہوئیں اور اس بحرِ محیط سے علم کے بیش بہا موتی چن کر آسمان علم و معرفت کی ان بلندیوں کو پہنچ گیے جہاں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ آپ رضی الله عنہا کے شاگردوں کی فہرست میں نظر آنے لگے۔صحابہ کرام کو جب بھی کوئی گھمبیر اور ناحل مسئلہ آن پڑتا تو اس کے حل کے لیے آپ رضی الله عنہا کی طرف رجوع لاتے۔حضرتِ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ہم اصحابِ رسول کو کسی بات میں اشکال ہوتا تو ام المومنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی بارگاہ میں سوال کرتے اور آپ سے ہی اس بات علم پاتے- ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا ان تمام معاملات کو بطورِ احسن انجام دینے کے ساتھ ساتھ الله رب العزت کی عبادت بھی بہت کرتی تھیں دن کو آپ اکثر روزہ دار ہوتیں اور رات کو معبودِ حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہتیں آپ کے بھتیجے حضرت سیدنا امام قاسم بن محمد بن ابو بکر کا بیان ہے: ام المومنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بلا ناغہ نمازِ تہجد پڑھنے کی پابند تھیں اور اکثر روزہ دار بھی رہا کرتی تھیں – ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرتِ سیدنا عبد الرحمٰن بن ابو بکر یومِ عرفہ کو ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے پاس آئے اس دن حضرتِ عائشہ روزے سے تھیں اور گرمی کی شدت کی وجہ سے آپ پر پانی چھڑکا جا رہا تھا حضرت سیدنا عبد الرحمٰن نے عرض کیا: روزہ افطار کر لیجیے آپ رضی الله عنہا نے ارشاد فرمایا: میں اسے افطار کر لوں……؟ حالانکہ میں نے اپنے سرتاج حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال پہلے گناہوں کا کفارہ ہے۔(مسند احمد 1144/حدیث السیدتہ عائشہ رضی الله عنہا، جلد/10/ 227/ الحدیث: 25712)
  ام المومنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا دن رات حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے شربتِ دیدار سے اپنی آنکھوں کو سیراب کرتے ہوئے کاشانہ اقدس میں آرام و سکون کے دن گزار رہی تھیں کہ وہ قیامت خیز سانحہ بپا ہونے کا وقت قریب آیا جب حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اس دنیا سے ظاہری پردہ فرمایا- وصال شریف سے چند روز پیشتر جب حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم بستر علالت پر تشریف فرما ہوئے تو آپ کی کیفیت یہ تھی کہ بار بار دریافت فرماتے: کل میں کہاں ہوں گا؟ کل میں کہاں ہوں گا؟ اس سے امہاتُ المومینین رضی الله تعالیٰ عنھن جان گئیں کہ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے پاس رہنا چاہتے ہیں لہٰذا سبھی نے متفقہ طور پر عرض کی: یارسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم! حضور جہاں رہنا پسند فرماتے ہیں رہئے….! پھر آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے پاس رہنے لگے۔(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب اذااستاذن الرجل…… الخ صفحہ نمبر/1341/ الحدیث:5217)حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی شانِ کریمانہ تھی کہ اس قدر عدل فرماتے تھے ورنہ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم پر یہ واجب نہ تھا۔ یقیناً آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے امت کو تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنے لیے راہ عمل متعین کرنی چاہیے مگر بد قسمتی سے آج کا مسلمان اس سے یکسر غافل ہے۔تقریباً 08/ روز تک حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے حجرے میں مقیم رہنے کے بعد آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ ظاہری فرمایا- وصال شریف کے وقت ام المومنین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے سینے پر سہارہ دیا ہوا تھا۔(سیرتِ سید الانبیاء، حصہ دوم، باب سوم، صفحہ/ 597) 

 مختصر تعارف سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا:
   آپ کا نام ،،عائشہ،، اور آپ کے والدِ ماجد کا نام حضرتِ سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام ،،زینب،، تھا لیکن یہ اپنی کنیت ،،ام رومان،، سے زیادہ مشہور ہیں- حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا کی کنیت ،،ام عبد الله،، ہے یہ کنیت اولاد کی نسبت سے نہیں بلکہ بھانجے حضرتِ عبد الله بن زبیر رضی الله تعالیٰ عنہما کی نسبت سے ہے۔حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے القاب بے شمار ہیں جن میں سے ایک ،، صدیقہ،، بھی ہے کیونکہ آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی صداقت کی گواہی قرآن مجید نے دی ہے اور ایک لقب ،،حمیرا،، ہے حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے بہت سے مقامات پر آپ کو اسی لقب سے یاد فرمایا ہے۔حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث مروی ہیں جن میں سے 174/ متفق علیہ یعنی بخاری و مسلم دونوں میں 54/ احادیث صرف بخاری شریف میں اور 68/ احادیث صرف مسلم شریف میں ہیں۔(مدارج النبوت، قسم پنجم، باب دوم در ذکر ازواجِ مطہرات رضی الله تعالیٰ عنھن، صفحہ/ 473)حضرتِ عروہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: مرد وعورت میں سوائے حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ کے کسی نے بھی آپ رضی الله تعالیٰ عنہا کے برابر احادیث روایت نہیں کیں- دنیائے اسلام کو اپنے علم و عرفان کے انوار سے جگمگاتے ہوئے باختلاف اقوال 17/ رمضان المبارک منگل کی رات 58/ ہجری کو حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے اس فانی دنیا سے کوچ فرمایا- عظیم محدث جلیل القدر صحابی رسول حضرتِ سیدنا ابوھریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور حسبِ وصیت رات کے وقت جنت البقیع میں آپ رضی الله تعالیٰ عنہا کو سپردِ خاک کیا گیا بوقتِ وفات حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا کی عمر شریف 67/ سال تھی۔(شرح الزرقانی علی المواھب، المقصد الثانی، الفصل الثالث، عائشہ ام المومنین، جلد/04/ صفحہ/ 392)



Source link

Exit mobile version