Site icon Islamicus

یوم آزادی اور ملک میں فرقہ واریت کی مسموم فضا



یوم آزادی اور ملک میں فرقہ واریت کی مسموم فضا

جب سے ہمارا ملک انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا ہے تب سے آج تک محبان وطن ہندوستان کی آزادی کے نغمے گاتے رہے ہیں اور آج بھی 15؍ اگست کو یوم آزادی کا جشن مناتے ہیں اورجشن کیوں نہ منائیں کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور اہل ایمان اللہ عزوجل کی نعمتوں کو یاد کرتے ہیں،اپنے رب کا شکرادا کرتے ہیں اور رب کی نعمتوں کا چرچا کرتے ہیں۔

ہر سال یوم آزادی کی صبح اپنے اندر بے شمار خوشیاں لاتی ہے،ساتھ ہی وطن سے محبت اور اس پر جانثاری کا درس بھی دیتی ہے،ملک میں خوشحالی اور تعمیر و ترقی کی نوید لاتی ہے،محبان وطن شہداے وطن کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں،   ان کی بے مثال قربانیاں اور وطن کے تئیں جوش و جذبے دوسرے شہریوں کے اندر ملک و ملت کے لیے دل و جان سے محبت کرنے کا درس دیتے ہیں۔یوم آزادی اہل وطن کے درمیان محبت، یگانگت، اتحاد و اتفاق اور قوم و ملت کے تئیں جان و تن کی بازی لگانے کے جذبے کو بھی فروغ دیتا ہے۔ ملک میں جمہوریت کی فضا کو ہموار کرتا ہے اور ہر مذہب کے ماننے والوں کو خود مختاری کے ساتھ جینے کا حق دیتا ہے ، اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے،اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے،اظہار رائے کی آزادی اور پورے ملک میں امن و شانتی کے ساتھ زندگی گزارنے جیسے حقوق عطا کرتا ہے۔ انھیں حقوق کی بنیاد پر ملک ہندوستان  جمہوریت کے بلند مقام پر فائز ہے۔ہندوستانیوں کے لیے یہ فخر کی بات ہے۔

لیکن 1947 کا یوم آزادی جیسے جیسے ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے،اس جمہوری ملک پر ایک خاص ذہنیت اور برتری پسند افکار و نظریات کے حامل افراد کی بالا دستی محسوس کی جا رہی ہے۔اقلیتوں کے حقوق مبینہ طور پر پامال کیے جارہے ہیں۔کہیں پامالی ہو رہی ہےتو کہیں ان کے حقوق کے تحفظ کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے۔ مسلم خواتین سے ہمدردی جتا کر اسلامی قوانین سے کھلواڑ کرنے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں،جب کہ ان ہمدردیوں سے بھی مفاد پرستی کی بو آرہی ہے ۔ صرف سیاسی مفاد کے پیش نظر ہی اقلیتوں کا خیال آتا ہے، ان سے ہمدردی کا راگ الاپا جاتا ہے،ان کے تئیں ہمدردی کا اظہار کیا جانے لگتا ہے،پھر انھیں حقوق اور ہمدردی کی آڑ میں سیاست کی روٹیاں سینکی جاتی ہیں۔

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں مختلف رنگ و نسل مذہب و ملت کے لوگ جمہوری اقدار کے سائے میں اپنے شب و روز گزارتے آئے ہیں۔رواں عشرے سے وطن عزیزکی فضا بہت مسموم ہو چکی ہے ،ہر طرف فرقہ واریت پیر پسار رہی ہے ۔جمہوری اقدار کے محافظ ہی جمہوری قدروں کی پامالی کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ملک بھر میں بھگوادھاری اپنے افکار و نظریات کی بالادستی میں اس قدر کوشاں ہیں کہ ہندو راسٹرا کاقیام ہی ان کا مقصد اصلی ہے ۔جس کی وجہ سے شہر کے شہر بدامنی اور بد سکونی کے شکار ہیں ،جگہ جگہ دنگے فساد اور مار پیٹ عام سی بات ہو چکی ہے ۔راہ چلتے مسافر بھی غیر محفوظ ہیں۔ٹرینوں میں اور بسوں میں پہچان کر ان کو گولیاں ماری جا رہی ہیں۔ پاکستان جانے کے لیے کہا جا رہا ہے ،جو جانے والے تھے گئے ،اب کوئی نہیں جانے والا۔ ان سے کہہ دیا جائے کہ وطن عزیز کو چھوڑنے کی دھمکیاں بند کر دی جائے ، ہم اپنے وطن کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں جبکہ ہمارے آبا و اجداد نے اپنی جانوں کی بازی لگا کر اس ملک کو آزاد کرایا ہے،اور ہر حالت میں یہیں رہنے کو ترجیح دی ہے۔

بے شمار علماے کرام نے جنگ آزادی میں حصہ لے کر اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور سچے محب وطن ہونے کا ثبوت دیا۔اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود ہم سےوطن کی محبت کی سند مانگی جا رہی ہے، جس سرزمین کو ہمارے بزرگوں نے اپنا وطن بنایا اور یہیں کی خاک کو اپنا دائمی مسکن بنایا ،اسی سرزمین پر رہنے کے لیے ہم سے ثبوت مانگا جا رہا ہے، اس سرزمین پر مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ہماری مساجد ،مدارس اور مکاتب کو مبینہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان مذہبی اداروں کے وجود کو مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔مذہب پر عمل کرنے کی آزادی اور مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی آزادی سلب کی جارہی ہے۔

عدلیہ کا وجود ہے لیکن لا قانونیت اور سفاکیت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ لوگوں کے گھروں کو ایک آن میں مسمار کر دیا جاتا ہے، اور اسے بلڈوزر کی سیاست کا نام دیا جارہا ہے۔اگر کوئی مجرم ہے تو عدلیہ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی غیرقانونی طور پر مجرم کے گھر کو مسمار کر دیا جارہا ہے۔ملک میں ایسے ظلم و بربریت کی مثال نہیں ملتی۔آپ ذرا سوچیں تو جن گھروں کے بنانے میں باپ کی جوانی ختم ہو جاتی ہے اور قوت و توانائی اورصحت جواب دے دیتی ہے یہ سفاک ظالم اسے ایک آن میں زمیں بوس کر دیتے ہیں ۔میں ایسی کاروائی کی سخت مخالفت کرتا ہوں اور ارباب اقتدار کو غیرت دلانا چاہتا ہوں کہ ایسی بزدلانہ حرکتوں سے باز آئیں ،ان کو خالق کائنات کی حاکمیت اور اس کے عدل و انصاف سے ڈراتا ہوں کہ اس کی بارگاہ میں دیر ہے اندھیر نہیں۔مظلوموں کی آہیں اس کی بارگاہ میں جلد پہنچتی ہیں ۔اگر ملک میں ظلم و بربریت ایسے ہی ہوتی رہی تو یہ ملک جمہوری اقدار کھو دے گا اور اس پر آمریت کا راج چلے گا ۔

میں ارباب علم و دانش سے ملتجی ہوں کہ جمہوری اقدار کے تحفظ میں تیزی لائی جائے اور بیمار ذہنوں کو یہ باور کرایا جائے کہ اس ملک کی آزادی میں سبھی مذاہب کے لوگوں نے حصہ لیاہے ۔خاص کر مسلم قائدین نے آزادی کی خاطر جو کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں  ان کو بھلایا نہیں جاسکتا ۔ ملک کی سنہری تاریخ  کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔آئین ہند کی دفعات کے پیش نظر ہر شہری کوحقوق دیے جائیں۔امن عامہ کو بحال کیا جائے ،اگر ملک میں امن و امان کی فضا قائم کی گئی اور شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کو یقینی بنایا گیاتبھی جشن آزادی منانا ہمیں زیب دے گا۔ورنہ دکھے ہوئے مغموم دل سے جشن منایا نہیں جاتا،تعزیت کی جاتی ہے۔نہ جانے کتنے گھر اجڑ گئے ۔نہ جانے کتنے بچے یتیم ہوگئے ،ماوں آنسو تھم نہیں رہے ایسے میں آزادی کا جشن کیسے منائیں؟ جشن تو تب منائیں جب واقعی آزاد ہوں ۔

ہمارے بزرگوں نے جس آزادی کا خواب دیکھا تھا آج کا ہندوستان اس کی تعبیر لانے سے قاصر ہے۔اس وقت ملک کو فرقہ واریت کا سامنا ہے ۔ہر طرف نفرت کی آندھی چل رہی ہے ۔ذہنوں میں عصبیت کا زہر گھول دیا گیا ہے۔ عوام کے محافظ کھلے عام سفاکیت کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔بےگناہ مسلمانوں کوپہچان کر ایک آن میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔جگہ جگہ دنگے فساد کے بےشمار واقعات رونما ہوتے ہیں اور مجرموں پر عبرت ناک کاروائی نہیں کی جاتی جس کے نتیجے میں ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں ۔

ایسے حالات میں حکومت پر ضروری ہے کہ دنگائیوں پر قدغن لگائے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچائے تاکہ ملک کا امن و امان بحال ہواور خواتین کی عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے۔

 ہمارے ملک میں آج بھی صالح افکار و نظریات کے حاملین موجود ہیں ۔عدلیہ اور ایوان مملکت میں آج بھی ملک و ملت کے تئیں  ہمدردی  اور ملک کی فلاح و بہبود کی فکر رکھنے والے افراد موجود ہیں،بس ہمارا رشتہ حکم الحاکمین سے مضبوط ہونا چاہیے ہم رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوں اور دعاؤں کے لیے اپنے ہاتھوں کو بلند کریں اور اور ملک میں امن و سلامتی اور حفظ و امان کی دعائیں کریں ۔ رب کائنات  ایسے حالات پیدا فرما کر اپنے بندوں کو آزماتا ہے ، صبر اور ایمان کا امتحان لیتا ہے ،ایسے حالات میں ہمیں ثابت قدم رہنے کی دعائیں کرنی چاہیے اور کوشش بھی کرنی چاہیے، رب کی رحمت ہم سب کی حامی و ناصر ہوگی۔



Source link

Exit mobile version