Site icon Islamicus

اوصافِ علی بگفتگو ممکن نیست



اوصافِ علی بگفتگو ممکن نیست

   الله رب العزت قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ؛ ،،اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہے اور وہ الله کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں،، (الدھر: 06/07)

   رئیس المحدثین امام المفسرین صدر الافاضل حضرت مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں؛ منت یہ ہے کہ جو چیز آدمی پر واجب نہیں ہے وہ کسی شرط سے اپنے اوپر واجب کرے۔ مثلاً یہ کہے کہ اگر میرا مریض اچھا ہو یا میرا مسافر بخیر واپس آئے تو راہِ خدا میں اس قدر صدقہ دوں گا یا اتنی رکعتیں نماز پڑھوں گا۔ اس نذر کی وفا واجب ہوتی ہے۔ معنیٰ یہ ہیں کہ وہ لوگ طاعت وعبادت اور شرع کے واجبات کے حامل ہیں، حتیٰ کہ جو طاعتِ غیر واجبہ ہے اپنے اوپر نذر سے واجب کر لیتے ہیں اس کو ادا کرتے ہیں۔ قتادہ نے کہا؛ اس دن کی شدت اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ آسمان پھٹ جائیں گے، ستارے گر پڑیں گے، چاند سورج بے نور ہو جائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، کوئی عمارت باقی نہ رہے گی اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے اعمال ریا ونمائش سے خالی ہیں۔ یعنی ایسی حالت میں جبکہ خود انہیں کھانے کی حاجت وخواہش ہو اور بعض مفسرین نے اس سے یہ معنیٰ لیے ہیں کہ الله رب العزت کی محبت میں کھلاتے ہیں۔

   شان نزول: یہ آیتِ کریمہ حضرت علی شیر خدا رضی الله عنہ اور حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی الله عنہا اور ان کی کنیز فضہ کے حق میں نازل ہوئی۔ حسنین کریمین رضی الله عنہما بیمار ہوئے، ان حضرات نے ان کی صحت پر تین روزوں کی نذر مانی، الله رب العزت نے صحت عطا فرمائی۔ نذر کی وفا کا وقت آیا، سب صاحبوں نے روزے رکھے، حضرت علی کرم الله وجہ الکریم ایک یہودی سے تین صاع جو لائے، حضرت خاتونِ جنت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا، لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز مسکین ایک روز یتیم اور ایک روز اسیر آیا اور تینوں دن یہ ساری روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں اور پانی سے افطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا گیا۔

   جامع المناقب میں ہے؛ صحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ فرماتے ہیں؛ حضرت علی شیر خدا کرم الله وجہ الکریم صاحبِ شجاعت وصداقت، زہد وعرفان، علم و فضل میں لاثانی تھے۔خود حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا؛ ،،جو شخص جنتی آدمی کو دیکھنے کا خواہشمند ہے وہ میرے علی ابو تراب کو دیکھے،، فرمایا؛ ،،میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور علی مشکل کشا عرب کے سردار ہیں،، الله رب العزت نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں فاطمتہ الزہرہ کی شادی مولی علی سے کرادوں۔ میرے ساتھ نماز سب سے پہلے علی نے پڑھی۔ اے علی! جو تیرا دوست میرا دوست،جو تیرا دشمن میرا دشمن ہے۔ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی کرم الله وجہ الکریم کو مخاطب کر کے فرمایا؛ ،،تمہاری حیثیت میرے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارون کی موسیٰ کے ساتھ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں،،(ترمذی)علی میرے ہیں اور میں علی سے ہوں۔(ترمذی) جس کا میں مددگار ہوں علی بھی اس کے مددگار ہیں۔ (احمد) منافق علی سے محبت نہیں رکھتا اور مومن علی سے بغض نہیں رکھ سکتا۔ (ترمذی) جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔ (احمد) علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔ (ترمذی) میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ (ترمذی) 

    آپ کا نام: علی۔ کنیت ابو الحسن اور ابوتراب ہے۔ آپ کے والدِ ماجد حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابو طالب ہیں۔ امیر المومنین حضرت علی کرم الله وجہ الکریم کی ولادتِ باسعادت 13: رجب المرجب 30ھ عام الفیل بروز جمعتہ المبارکہ کو ہوئی۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے آپ کا نام علی رکھا۔ باعتبار نسب آپ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ کی کنیت ابو تراب اور مشہور لقب حیدر کرّار ہے۔ آپ کی تربیت تمام وکمال حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے آغوشِ رحمت میں ہوئی۔ جب حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو خلعتِ نبوت عطا ہوئی اس کے ایک دن بعد آپ شرفِ ایمان سے فیضیاب ہوئے اس وقت آپ کی عمر گیارہ سال تھی۔ (شان صحابہ:117) حضرت علی کرم الله وجہ الکریم حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کا شاہکار ہیں۔ آپ نے تاریخ کے مہیب اندھیرے میں حق وصداقت کا چراغ روشن کیا، حکمت علم وفضل اور بلاغت میں آپ اپنی نظیر تھے، آپ کی شجاعت وبہادری تاریخ اسلام کا ایک درخشندہ باب ہے۔ آپ کی سیرت، سیرتِ نبوی کے گرد گھومتی ہے، آپ نے حق اور حقیقت کے لیے جان جیسی عزیز چیز قربان کر دی، فاتح خیبر حضرتِ علی شیر خدا کرم الله وجہ الکریم آپ ہی ہیں۔ آپ تقوی وطہارت، شجاعت علم اور حسنِ اخلاق کا مجسمہ تھے۔ آپ کی زندگی سادگی اور فقر کا کامل نمونہ تھی۔ حضرت علی کرم الله وجہ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کے بعد 26 ذی الحجہ 35ھ کو مسندِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے۔ حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت پر مسلمانوں میں فتنہ کا دروازہ کھل چکا تھا، آپ کے عہد خلافت میں جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئیں، حضرت علی کرم الله وجہ نجیب الطرفین ہاشمی، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے سچے عاشق، سر خیل اولیاء اور خلیفہ چہارم ہیں۔ بحر علم وحکمت، مخزن سخاوت، سلطان الشجاع، رہبر اولیا الله، مظہر العجائب، امام المشارق و مغارب، رازدان شریعت وپیشوائے طریقت ہیں۔حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ اور حضرت عثمانِ غنی رضی الله عنہ کے زمانہ ہائے خلافت میں حضرت علی کرم الله وجہ ان کے معتمد مشیر، دست و بازو رہے۔ خصوصاً حضرت عمر رضی الله عنہ اہم معاملات میں آپ سے مشورہ لیتے۔ حضرتِ علی کرم الله وجہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی الله عنہ کے بہترین ہمدرد اور آپ کو یہ شرف بھی حاصل تھا کہ آپ سوائے غزوہ تبوک کے تمام غزوات میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے ہمرکاب ہوئے۔ غزوہ بدر میں ستر مشرکین مارے گئے ان میں سے اکیس مشرک آپ کی تیغ سے قتل ہوئے۔ غزوہ احد میں جب حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو کفار نے اپنے نرغے میں لیا تو اس وقت حضرت علی نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر کفار پر شدید حملے کئے اور شجاعت کا بے مثل کارنامہ پیش کیا۔ غزوہ خندق میں جب عمر بن عبدود نے جو قوت اور بہادری میں ہزار آدمیوں پر بھاری سمجھا جاتا تھا، مقابل صف عسکر اسلام ہوا تو حضرتِ علی اس کے مقابلے میں نکلے اور آپ کی ذوالفقار نے اس کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اس طرح عمر بن عبدود کے قتل سے دشمنانِ اسلام کی کمر ہمت ٹوٹ گئی اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ خیبر کا قلعہ قمروص جب فتح نہ ہوسکا تو حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے لشکرِ اسلام کا علم حضرت علی کو عطا فرمایا۔ اس وقت حضرت علی آشوبِ چشم میں مبتلا تھے، حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک لگا دیا آشوبِ چشم جاتا رہا،آپ ایک ہی جست میں خندق کو پار کر کے قلعہ کے دروازے پر پہنچ گیے، اس کے ایک کواڑ کو ڈھال بنا کر لڑے اور قلعہ فتح کر لیا، آپ کے اس تحیر کن قوت کو دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی،حضرت علی فرماتے ہیں؛ اگر میں جست لگاؤں تو آسمان تک پہنچ جاؤں یہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لعاب مبارک ہی کی برکت تھی۔ (شان صحابہ:120)

  حضرتِ علی کرم الله وجہ ذی الحجہ 35ھ میں خلیفہ ہوئے اور 17 رمضان المبارک 40ھ کو شہید ہوئے۔ حضرت حسنین کریمین رضی الله عنہ کے علاوہ آپ کی دیگر ازواج سے سولہ فرزند تھے۔ بعض نے تصریح کی کہ آپ کے کل انیس بیٹے اور 18 بیٹیاں تھیں، 06 صاحبزادے آپ کی حیات ہی میں انتقال کر گئے باقی تیرہ میں سے 06 یعنی حضرت عباس بن علی، حضرت عثمان بن علی،حضرت عمر بن علی،حضرت ابو بکر بن علی،حضرت ابو القاسم،محمد بن علی اور حضرت امام حسین کربلا میں شہید ہوئے۔

           شہادت:

   18 رمضان المبارک 40ھ کو حضرت علی جامع مسجد کوفہ میں تھے۔ شقی ازلی ابن ملجم خارجی نے اس شمع ہدایت پر جس کی حیات کا ایک ایک لمحہ نوع انسانی کے لیے مشعلِ راہ تھا، جو تقوی وپرہیز گاری، علم ومعرفت میں یکتائے روزگار تھا، زہر آلود خنجر سے زخمی کیا اور یہ علم وفضل کا آفتاب 21 رمضان المبارک کو غروب ہوگیا۔ آپ کا روضہ اقدس نجف اشرف میں فیوض ولایت محمدی کا مرکز اور اولیاء امت کا ملجا و ماوی ہے۔

       ارشاداتِ عالیہ

   حضرتِ علی کرم الله وجہ فصاحت وبلاغت اور قادر الکلامی میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا عکسِ جمیل تھے۔ آپ کے اقوال اور خطبات اثر پذیری میں آپ اپنی مثال تھے۔ چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں؛ اے دنیا! کیا تو میرا امتحان لینے چل رہی ہے اور مجھے بہکانے کی ہمت کی ہے، مایوس ہوجا کسی اور کو فریب دے۔ تیری عمر کوتاہ، تیرا عیش بے حقیقت، تیرا خطرہ زبردست، ہائے زاد راہ کس قدر کم ہے، سفر کتنا طویل اور راستہ کس قدر وحشت ناک ہے۔ کسی حریص کو اپنا مشیر نہ بناؤ کیونکہ وہ تم سے وسعتِ قلب اور استغنا چھین لے گا۔ کسی بزدل کو اپنا مشیر نہ بناؤ کیونکہ وہ تمہارے ولولوں اور حوصلوں کو شکست دے دے گا۔ کسی جاہ پسند کو اپنا مشیر نہ بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اندر حرص وہوا پیدا کردے گا اور تمہیں ظالم و آمر بنا دے گا۔ تنگ دلی، بزدلی اور حرص انسان سے اس کا ایمان سلب کر لیتی ہے۔ ایسے لوگ تمہارے لیے بہتر مشیر ثابت ہو سکتے ہیں جنہیں خدا نے ذہانت اور بصیرت سے نوازا ہوگا، جن کے دامن پر کسی گناہ کا داغ نہ ہو اور جنہوں نے کبھی کسی ظالم کی اطاعت نہ کی ہو۔ حضرت علی کرم الله وجہ کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو نمایاں ہے۔ صبر وشکر، تسلیم ورضا، قناعت وتوکل، جود وسخا، ایثار و رحم دلی، دلیری وشجاع، عادت ومحاسن، اخلاق واطوار، تزکیہ، تصفیہ، ریاضت ومجاہدات، کشف وکرامات، علم وتدبر، زہد و ورع، افہام وتفہیم، مدبر ومفکر ایسے بے شمار کمالات کے مالک ہیں جو بیان امکان سے ماورا ہے۔ اسلام کی آواز مایہ ناز رنج و غم سے بے نیاز، سراپا دل نواز، بیکس نواز، امیر نواز غریب نواز کی چوپائی پر اپنی بات ختم کرتا ہوں؛

               اوصافِ علی بگفتگو ممکن  نیست

               گنجائش بحر درسبو ممکن  نیست

               من ذات   علی    بواجبی  کے دانم

               الا دانم کہ  مثل او   ممکن  نیست



Source link

Exit mobile version