Site icon Islamicus

امام اعظم ابوحنیفہ اور علم حدیث



امام اعظم ابوحنیفہ اور علم حدیث

حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی الله تعالیٰ عنہ امام الآئمہ، سراج الامتہ، رئیس الفقہاء والمحدثین، سید الاولیاء والمحدثین، پیشوائے اصفیا، مبشر مصطفٰی، دعائے مرتضیٰ، القصہ نبوت وصحابیت کے بعد انسان میں جس قدر فضائل و محاسن پائے جاسکتے ہیں آپ ان تمام اوصاف کے جامع و رہنما تھے- حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ کا نام ،،نعمان،، اور آپ کے والدِ ماجد کا نام ،،ثابت،، اور کنیت ،،ابو حنیفہ،، ہے آپ 70/ ہجری میں عراق کے مشہور شہر ،،کوفہ،، میں پیدا ہوئے اور 80/ سال کی عمر میں 02/ شعبان المعظم 150/ ہجری میں وفات پائی-                
                           (نزہتہ القاری/جلد اول/صفحہ/169/219)
      حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے ابتدائی ضروری تعلیم کے بعد تجارت کو اپنا مقصدِ حیات بنایا مگر زہد و تقویٰ کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیا آپ گوشہ نشینی کی راہ پر گامزن ہوئے تو خواب میں حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو حنیفہ! الله تعالیٰ نے تیری تخلیق میری سنت کے اظہار کے لیے فرمائی ہے لہٰذا دنیا سے کنارہ کشی مت اختیار کرو- الله رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: 
        ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے الله ان سے راضی اور وہ الله سے راضی- 
                                      (التوبہ/ رکوع/ 02/پارہ11)
 حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ تابعین میں سے ہیں اس لیے ،،رضى الله عنهم ورضوا عنه،، کا مژدہ جانفزا ان کے لیے بھی ہے حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اگر دین ثریا کے پاس بھی ہو تو فارس کا ایک مرد اسے ضرور پا لے گا-
              (ابنِ عابدین شامی/ردالمحتار/جلد اول/صفحہ/49)
    علامہ سیوطی فرماتے ہیں: یہ صحیح اور قابلِ اعتماد اصل ہے جس میں امام اعظم ابو حنیفہ کی بشارت ہے- علامہ سیوطی کے شاگرد اور سیرتِ شامیہ کے مصنف حضرت شیخ محمد بن یوسف صالحی شافعی فرماتے ہیں: شیخ کا یہ فرمان بالکل صحیح ہے کہ اس حدیث کا اشارہ امام اعظم کی طرف ہے کیونکہ اہل فارس میں سے کوئی بھی ان کے مبلغ علم کو نہیں پہنچ سکا- (رد المحتار/ جلد اول)

          امام اعظم کی خصوصیات:

       حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالٰی عنہ زمانہ صحابہ میں پیدا ہوئے جو بحکمِ حدیث ،،خیر القرون،، میں سے ہے- آپ نے متعدد صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کی زیارت کی ان سے حدیثیں سنی اور روایت بھی کیں- آپ نے تابعین کے دور میں اجتہاد کیا اور فتویٰ دیا، مشہور محدث امام اعمش جب حج کے لیے روانہ ہوئے تو مسائلِ حج امام اعظم ابو حنیفہ سے لکھوا کر ساتھ لے گیے- حالانکہ وہ حدیث میں امام اعظم ابو حنیفہ کے اساتذہ میں سے ہیں- جلیل القدر آئمہ حدیث آپ سے روایت کرتے ہیں حضرت عمر بن دینار امام اعظم ابو حنیفہ کے اساتذہ میں سے ہیں اس کے باوجود آپ سے روایت کرتے ہیں- آپ نے چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا- آئمہ اربعہ میں سے کسی دوسرے امام کے اتنے اساتذہ نہیں ہیں انہیں شاگردوں کی ایسی بے نظیر جماعت میسر آئی جو بعد میں کسی امام کو میسر نہ آئی- خطیبِ بغداد کہتے ہیں: حضرت وکیع بن الجراح کی مجلس میں کسی نے کہ دیا کہ ابو حنیفہ نے خطا کی- انہوں نے فرمایا: ابو حنیفہ کیسے غلطی کر سکتے ہیں؟ جبکہ ان کی مجلسِ علمی میں ابو یوسف، زفر اور محمد ایسے ماہرین قیاس اور مجتہد موجود ہیں، یحییٰ ابنِ زکریا، حفص ابنِ غیاث، حنان اور مندل ایسے حافظ الحدیث اور حدیث کی معرفت رکھنے والے ہیں، حضرت عبد الله بن مسعود کی اولاد میں سے قاسم ابن معن ایسے لغت اور عربی زبان کے امام موجود ہیں- داؤد ابن نصیر طائی، فضیل ابنِ عیاض ایسے پیکر زہد و تقویٰ ہیں، جہاں ایسے لوگ موجود ہوں وہاں انہیں غلطی نہیں کرنے دیں گے اور اگر ان سے خطا سرزد ہو بھی جائے تو یہ حضرات انہیں حق کی طرف پھیر دیں گے- حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فقہ کے پہلے مدون ہیں اس سے پہلے صحابہ کرام اور تابعین اپنی یادداشت پر اعتماد کرتے تھے امام اعظم ابو حنیفہ نے محسوس کیا کہ اگر مسائل اسی طرح بکھرے رہے تو علم کے ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے اس لیے آپ نے فقہ کو مختلف کتب اور ابواب پر مرتب کر دیا- امام مالک نے موطا کی ترتیب میں آپ ہی کی پیروی کی- آپ کا مذہب دنیا کے ان خطوں میں پہنچا جہاں دوسرے مذاہب نہیں پہنچے- آپ اپنے کاروبار کی آمدنی سے گزر بسر کرتے تھے، اہل علم پر خرچ کرتے اور کسی کا ہدیہ قبول نہیں کرتے تھے- آپ کی عبادت وریاضت، زہد و تقویٰ اور حج و عمرہ کی کثرتِ حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے-
                                     (عقود الجنان/صفحہ 185/179)

       تطبیق احادیث:
    احادیث میں اگر بظاہر تعارض واقع ہو تو پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ان میں تطبیق دی جائے- حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ کو احادیثِ مختلفہ کی تطبیق میں بھی ید طولی حاصل تھا- 
     سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت کسے حاصل ہوئی؟ اس بارے میں مختلف روایات ہیں، پہلے پہل ان میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے تطبیق دی کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ، عورتوں میں حضرت خدیجتہ الکبری رضی الله عنہم، بچوں میں حضرت مولا علی کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم اور غلاموں میں حضرت زید ایمان لائے-
                            (حاشیہ الصواعق المحرقہ/صفحہ/ 76)
       اسی طرح رکعات نماز میں کسی کو شک واقع ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اس سلسلے میں تین مختلف روایتیں ہیں، حضرتِ امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے ان میں یوں تطبیق دی کہ اگر کسی کو پہلی مرتبہ شک واقع ہو تو اسے از سرِ نو نماز پڑھنی چاہیے اور اگر اسے شک واقع ہوتا رہتا ہے تو غور کرے جس طرف اس کا غالب گمان ہو اس پر عمل کرے اور اگر کسی طرف بھی غلبہ ظن حاصل نہیں اور دونوں جانبیں برابر ہیں تو کم تعداد کو اختیار کرے- مثلاً تین اور چار میں تردد ہو تو تین رکعتیں قرار دے اور ایک رکعت مزید پڑھ لے- ( کوثر النبی/جلد اول/صفحہ/498)
  بعض شافعیہ نے کہا کہ امام اعظم ابو حنیفہ قیاس پر عمل کرتے ہیں اور حدیث کو چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ بعض محدثین ،،قال بعض اہل الرائی،، کے عنوان سے امام صاحب کا قول بیان کرتے ہیں:
      ،،یہ الزام حقیقت کے سراسر خلاف ہے حضرت عبد الله ابن المبارک فرماتے ہیں: امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا: جب حضور صلی الله تعالیٰ علیہ کی حدیث ہم تک پہنچے تو سر آنکھوں پر اور جب صحابہ کرام سے مروی ہو ( اور صحابہ کرام کا آپس میں اختلاف ہو) تو ہم ان میں سے کسی ایک کا قول اختیار کرتے ہیں ایسا نہیں ہوتا کہ ہم ان میں سے کسی کا قول بھی اختیار نہ کریں اور جب تابعین کا قول مروی ہوتو ہم ان سے اختلاف کرتے ہیں- (عقود الجمان/صفحہ/173)

             حدیثِ مصراة:  
      عرب میں تاجروں کی عام طور پر یہ عادت تھی وہ مادہ جانور کے فروخت کرنے سے پہلے ایک دو دن اس کا دودھ نہیں دوہتے تھے- خریدار تھنوں کو دودھ سے بھرا ہوا دیکھ کر وہ جانور گراں قیمت پر خرید لیتے گھر جاکر اس پر منکشف ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا دھوکہ ہوا ہے؟ ایسے جانور کو مصراة کہتے ہیں- 
      حضرت ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے: رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مصراة بکری خریدے اور گھر لے جاکر اس کا دودھ دوہے تو اگر اس کے دودھ پر راضی ہے تو اسے رکھ لے ورنہ وہ بکری اور اس کے ساتھ ایک صاع کھجور واپس کردے- 
                               (مسلم شریف/جلد دوم/صفحہ/04)
   حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ خریدار بکری واپس نہیں کر سکتا البتہ دودھ کی کمی کے سبب بکری کی قیمت میں جتنی کمی واقع ہوگی وہ بائع سے لے سکتا ہے- امام اعظم ابو حنیفہ نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا اور عمل نہ کرنے کی وجوہ بھی بیان فرمائیں: 
     * یہ حدیث کتاب الله کے مخالف ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
       ،، فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم ،،
تم پر جتنی زیادتی کی گئی ہے تم بھی اتنی ہی زیادتی کرو-
خریدار نے بکری کا دودھ جو پیا ہے ضروری نہیں کہ ایک صاع کھجور کے برابر ہو کم بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ بھی-
     * یہ حدیث معروف کے خلاف ہے حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم سے مروی ہے: ،، الخراج بالضمان ،، خریدی ہوئی چیز کی پیداوار اور آمدنی کا استحقاق اصل کی ضمانت کی بنا پر ہے- ایک شخص نے غلام خرید کر اسے اجارہ پر دیا بعد میں اس کے عیب کا پتہ چلا، اس نے یہ مسئلہ بارگاہِ رسالت مآب صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم میں پیش کیا- حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے عیب کی بنا پر غلام واپس کر دیا- بائع نے عرض کیا حضور اس نے نفع بھی حاصل کیا ہے- فرمایا: نفع ضمانت کی بنا پر ہے- یعنی اگر غلام مرجاتا تو اس کی ذمہ داری میں مرتا- (شرحِ معانی الآثار/جلد دوم/ صفحہ/227)
     * یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے کیونکہ اگر کوئی شخص دوسرے کی کوئی چیز ضائع کر دے تو اس پر اجماع ہے کہ اس کے بدلے میں ویسی ہی چیز دے یا قیمت ادا کرے- اس اجماع کے مطابق بکری واپس کرنے کی صورت میں خریدار پر لازم ہونا چاہیے کہ جتنا دودھ پیا ہے اتنا دودھ واپس کر دے یا اس کی قیمت- ایک صاع کھجوریں نہ تو دودھ کی مثل ہیں اور نہ ہی اس کی قیمت- 
     * یہ حدیث قیاس کے بھی خلاف ہے کیونکہ کسی کی کوئی چیز ضائع کر دینے کی صورت میں قیاس یہ ہے کہ یا تو اس کی مثل ادا کی جائے یا ثمن یا قیمت- ایک صاع کھجور نہ ثمن ہے نہ قیمت اور نہ مثل- ثمن وہ معاوضہ ہے جو بائع اور مشتری کے درمیان طے پائے اور قیمت وہ مالیت جو بازار کے بھاؤ کے حساب سے ہو- (الجواہر المضیہ/ جلد دوم/ صفحہ/ 417/418)
     * امام ابو جعفر طحاوی رحمتہ الله تعالیٰ نے فرمایا: یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ بکری کے فروخت کے وقت جو دودھ موجود تھا وہ بائع کی ملکیت تھا جب بکری کی بیع منسوخ ہوئی تو اس دودھ کی بیع بھی منسوخ ہوگئی اور چونکہ وہ اس وقت موجود نہیں ہے اس لیے وہ دین ہوا اور اس کے مقابل ایک صاع کھجور خریدار کے ذمہ پر آگئی وہ بھی دین ہے تو یہ دین کی دین کے ساتھ بیع ہوئی اور وہ بحکمِ شریعت ممنوع ہے- حضرت عبد الله ابنِ عمر رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے دین کی دین سے بیع کرنے سے منع فرمایا- ( شرحِ معانی الآثار/جلد دوم/صفحہ/227)

             کتے کے جوٹھے برتن کا حکم: 

     حضرت ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے راوی ہے: حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈال دے تو وہ سات مرتبہ دھوئے- ( بخاری و مسلم) حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے اس حدیث پر عمل نہیں کیا ان کے نزدیک تین مرتبہ دھونا ہی کافی نہیں- مذکورہ بالا احادیث پر عمل نہ کرنے کی آپ نے دو وجہیں بیان فرمائیں:
     * یہ حدیث مظرب ہے کسی روایت میں ہے کہ سات مرتبہ دھوئے اور پہلی مرتبہ مٹی کے سات دھوئے- کسی روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ مٹی کے ساتھ دھوئے، کسی روایت میں آخری مرتبہ مٹی کے ساتھ دھونے کا حکم ہے اور ایک روایت میں دوسری مرتبہ مٹی کے ساتھ دھونے کا حکم ہے اس اضطراب کی بنا پر اس حدیث پر عمل نہیں کیا گیا-
     * اصولِ فقہ کا مشہور قائدہ ہے کہ جب راوی کا خود اپنی روایت کے خلاف عمل ہو تو اس کی روایت کو نہیں بلکہ اس کے عمل کو اپنایا جائے گا- کیونکہ جس راوی کی عدالت اور دیانت پر اعتماد ہو وہ جب ایک حدیث رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کرتا ہے اور خود اس کے خلاف عمل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ وہ حدیث اس راوی کے نزدیک منسوخ ہے یا اس کے معارض اس سے زیادہ قوی حدیث موجود ہے- شیخ تقی الدین ابنِ دقیق العبید فرماتے ہیں کہ روایت سے ثابت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کے نزدیک کتے کے جوٹھے برتن کو تین مرتبہ دھویا جائے گا-
                        (الجواھر المضیہ/جلد دوم/صفحہ427)
      حافظ ابو بکر ابن ابی شیبہ کوفی نے اپنی مصنف کے ایک حصہ کا نام ،،کتاب الرد علی ابی حنیفہ،، رکھا ہے اور وہ اس میں ایسی حدیثیں لائے ہیں جو بظاہر امام اعظم ابو حنیفہ کے مذہب کے خلاف ہیں علامہ عبد القادر قرشی متوفی اور علامہ قاسم ابن قطلوبغا نے اس کا تفصیلی رد لکھا- صدر الافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمتہ والرضوان نے اس پر تقریظ لکھی وہ فرماتے ہیں: حافظ ابن ابی شیبہ اگر آج ہوتے تو اس تحریر کی ضرور قدر کرتے اور اس کو اپنی مصنف کا جز بناتے یا کتاب الرد کو اپنی مصنف سے خارج کرتے- ( فقہ الفقہ/صفحہ/ 335)
          سرکار اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے فتویٰ رضویہ کی بارہ ضخیم جلدوں میں فقہ حنفی کو ایسے دلائل و براہین سے بیان کیا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں فتاویٰ رضویہ فقہ حنفی کا وہ دائرۃ المعارف ہے کہ کسی بھی مسئلے پر تفصیلی دلائل اس میں دیکھے جا سکتے ہیں- مشہور غیر مقلد عالم مولوی نذیر حسین دہلوی نے شافعیہ کی تقلید میں یہ فتویٰ دیا کہ سفر کی حالت میں بغیر عذر کے دو نمازیں ایک نماز کے وقت میں پڑھی جاسکتی ہیں- اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اس کے جواب میں سوا سو صفحات کا ایک رسالہ ،،حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلوتین،، تحریر فرمایا اور اس رسالہ میں حدیثِ پاک کی روشنی میں مذہبِ حنفی کو بیان کیا اس رسالے میں حدیث سے متعلق محدثانہ ابحاث کو دیکھ کر بڑے بڑے محدث انگشت بدنداں رہ گئے- قاری عبد الرحمٰن پانی پتی اور مولوی رشید احمد گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ نمازِ تراویح میں سورہ برات کے علاوہ ہر سورت کے ساتھ بسم الله شریف کا بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے ورنہ ختم مکمل نہ ہوگا- اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله تعالیٰ عنہ نے اس موضوع پر ایک رسالہ قلمبند فرمایا جس کا نام ،،وصاف الرجیح فی بسملتہ التراویح،، اور تفصیلی دلائل سے ثابت کیا کہ فقہ حنفی کے مطابق سورہ نمل کے علاوہ صرف ایک مرتبہ بسم الله شریف بلند آواز سے پڑھی جائے گی- یہ فتویٰ حرفِ آخر ثابت ہوا اور آپ آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ تمام حفاظ کا اسی پر عمل ہے- روئے زمین پر جب تک الله رب العزت کی عبادت کی جائے گی ،،الدال على الخير كفاعله،، کے مطابق اس کا ثواب امام الائمہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ کو بھی ملتا رہے گا اور رہتی دنیا تک فقہا اور قانون دان حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے کسب فیض کرتے رہیں گے-

     وصال:
      عباسی خلیفہ منصور نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ آپ میری مملکت کے قاضی القضات بن جائیے- فرمایا: میں اس عہدے کے قابل نہیں- منصور بولا! آپ جھوٹ کہتے ہیں- فرمایا! اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو آپ نے خود ہی فیصلہ کر دیا! جھوٹا شخص قاضی بننے کے لائق ہی نہیں ہوتا- خلیفہ منصور نے اس بات کو اپنی توہین تصور کرتے ہوئے حضرتِ امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ کو جیل بھجوا دیا- روزانہ آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کے سر مبارک پر دس کوڑے مارے جاتے جس سے خون سر اقدس سے بہ کر ٹخنوں تک آجاتا- اس طرح آپ کو مجبور کیا جاتا رہا کہ قاضی بننے کے لیے ہامی بھر لیں، مگر آپ رضی الله تعالیٰ عنہ حکومتی عہدہ قبول کرنے کے لیے راضی نہ ہوئے- اسی طرح آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کو یومیہ دس کے حساب سے ایک سو دس کوڑے مارے گئے- لوگوں کی ہمدردیاں حضرتِ امام اعظم ابوحنیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھیں- بالآخر دھوکے سے زہر کا پیالہ پیش کیا گیا مگر آپ رضی الله تعالیٰ عنہ مومنانہ فراست سے زہر کو پہچان گیے اور پینے سے انکار فرما دیا اس پر آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کو لٹا کر زبردستی حلق میں زہر انڈیل دیا گیا زہر نے جب اپنا اثر دکھانا شروع کیا تو آپ رضی الله تعالیٰ عنہ بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہوگئے اور سجدے ہی کی حالت میں 150/ہجری میں آپ رضی الله تعالیٰ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا-
                                (الخیرات الحسان/صفحہ 88/92)
    اس وقت آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کی عمر شریف 80/ برس تھی بغداد معلیٰ میں آپ رضی الله تعالیٰ عنہ کا مزار فائض الانوار آج بھی مرجع خلائق ہے-



Source link

Exit mobile version