Site icon Islamicus

امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ اور سائنسی علوم

Listen to this article



اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسی نابغۂ روزگار شخصیت کا نام ہے جنہوں نے نہ صرف علومِ دینیہ میں گراں قدر خدمات انجام دیں بلکہ سائنسی علوم، ریاضی، فلکیات، طب، علمِ توقیت، فقہ، فلسفہ، منطق اور عصری علوم پر بھی غیر معمولی دسترس رکھی۔ وہ ان برگزیدہ علماء میں شامل ہیں جنہوں نے اسلام کو سائنس کے لیے معاون اور رہنما قرار دیا۔ ان کے فکری نظریات اور تحقیقی نکات آج کے جدید سائنسی ماحول میں بھی اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں۔ آج کا یہ دور، جو ماڈرن سائنس کے نام سے موسوم ہے، اسلامی اصولوں اور قرآنی رہنمائی کے بغیر ادھورا اور ناقص ہے۔

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  کا تعلق بریلی، ہندوستان سے تھا۔ آپ کی ولادتِ باسعادت 1856ء میں ہوئی اور 1921ء میں وصال فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی غیر معمولی بصیرت اور فکری گہرائی عطا فرمائی تھی کہ آپ نے دین و دنیا کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کی۔ آپ کے فتاویٰ اور علمی تحقیقات آج بھی اہلِ علم کے لیے قیمتی خزانہ ہیں۔ آپ کی تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے، جن میں بیسیوں کتابیں سائنسی موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  نے منطقی علوم اور سائنسی موضوعات پر ایسی مدلل تحقیقات پیش کی ہیں جو آج بھی ہر شعبۂ علم کے ماہرین کے لیے روشن چراغ کی مانند ہیں۔

آپ کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے سائنس کو دینی اصولوں کی روشنی میں سمجھا اور پرکھا۔ آپ نے نہ صرف سائنسی مسائل پر سوالات کے جوابات دیے بلکہ ریاضی اور فلکیات جیسے پیچیدہ مضامین میں اپنی مہارت اور علمی بصیرت کا لوہا منوایا۔

یہ دلچسپ اور تاریخی واقعہ آپ کے علمی کمال کا شاہد ہے۔ 1911ء میں جب انگریز ماہرین نے چاند گرہن کے وقت میں اختلاف ظاہر کیا تو امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  نے، کسی جدید آلے کے بغیر، محض ریاضیاتی اصولوں اور علمِ ہیئت کی بنیاد پر چاند گرہن کا درست وقت بتایا۔ جب گرہن بالکل اسی وقت وقوع پذیر ہوا تو اہلِ علم حیران رہ گئے۔ انگریز سائنسدان اور ماہرین آپ کے حسابات کے معترف ہوئے اور آپ کی غیر معمولی بصیرت کا چرچا کرنے لگے۔

آپ کی معروف کتاب “کشف العلة عن سمت القبلة” علمِ ہیئت اور فلکیات پر ایک شاہکار تصنیف ہے، جس میں قبلہ کی سمت کے تعین کا دقیق اور سائنسی طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب آج بھی ان علماء اور ماہرینِ فلکیات کے لیے رہنما کا درجہ رکھتی ہے جو اوقاتِ نماز، قبلہ کی تعیین اور فلکی حرکات کے حسابات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آپ نے سائنسی تحقیق کو دینی رہنمائی کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور جدید سائنسی علوم کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان فرمایا۔

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  نے طب اور علمِ حیات میں بھی گراں قدر آراء پیش کیں۔ ان کی متعدد کتابوں میں امراض کی تشخیص، علاج اور دواؤں کے نسخے ملتے ہیں۔ آپ نے طبِ یونانی کے اصولوں کو اسلامی تعلیمات سے جوڑ کر جسمانی اور روحانی بیماریوں کا ایسا تجزیہ پیش کیا جو آج بھی معالجین اور محققین کے لیے قیمتی سرمایہ ہے۔ ان تحریروں سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپ صرف دینی علوم کے ماہر نہیں بلکہ سائنس کے مختلف شعبوں پر بھی غیر معمولی عبور رکھتے تھے۔

ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  نے سائنسی تحقیقات میں جدید آلات اور مغربی نظریات پر تنقید بھی کی، مگر انکار کی بنیاد جہالت یا تعصب پر نہیں بلکہ علم، تحقیق اور دلیل پر رکھی۔ آپ نے یہ واضح کیا کہ اگر کوئی سائنسی نظریہ عقل، تجربہ اور دینی اصولوں سے متصادم نہ ہو تو اسلام اسے تسلیم کرتا ہے۔ ان کی علمی بصیرت کا کمال یہ تھا کہ آپ نے سائنس اور اسلام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی اور ہر نظریے کو سچائی کے پیمانے پر پرکھا۔

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  کا عظیم علمی کارنامہ “فتاویٰ رضویہ” ہے، جو 30 جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس میں سائنسی مسائل پر بھی تفصیلی بحث کی گئی ہے، خواہ وہ چاند اور سورج گرہن کے اوقات ہوں، وقت کے حسابات ہوں، طب ہو یا حیاتیات — آپ نے ہر مسئلہ کو دین کی روشنی میں مدلل انداز میں پیش کیا۔ آپ نے سائنس کو محض دنیاوی ترقی کا ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ اسے دینی فہم اور اخلاقی رہنمائی کے ساتھ مربوط کیا تاکہ انسانی ترقی کے ساتھ روحانیت بھی محفوظ رہے۔

آپ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مسلمان سائنس سے دور نہ رہیں بلکہ اس میں مہارت حاصل کریں، لیکن ایمان اور عقیدے کو کبھی نہ چھوڑیں۔ آپ کے نزدیک وہی علم معتبر ہے جو دل و دماغ دونوں کو منور کرے اور انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی عطا کرے۔

آپ کا اندازِ تحریر نہایت منطقی، مدلل اور روحانی تاثیر سے بھرپور ہے جو پڑھنے والے کے ذہن میں توازن، بصیرت اور فکری وسعت پیدا کرتا ہے۔ جدید دور میں جب سائنس کو مذہب سے الگ سمجھا جاتا ہے، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  کی فکر یہ درس دیتی ہے کہ سائنس اور دین دونوں دراصل خدا کی نشانیاں ہیں۔ آپ کی تحقیق ہمیں سکھاتی ہے کہ علم کو محض مغربی زاویے سے نہیں بلکہ ایک مومن کی بصیرت سے بھی دیکھنا چاہیے۔ آپ نے اپنے وقت میں جن باتوں پر تحقیق کی، وہ آج بھی سائنسی حلقوں میں قابلِ توجہ اور تحقیق کا باعث ہیں۔

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی پوری زندگی علمی تحقیق اور خدمتِ دین کے لیے وقف کی۔ آپ کی سائنسی تحقیقات نہ صرف اپنے زمانے کے لیے مشعلِ راہ تھیں بلکہ آج کے جدید دور کے لیے بھی رہنمائی کا سرچشمہ ہیں۔ آپ کا پیغام بالکل واضح ہے کہ مسلمان علم میں پیچھے نہ رہے مگر علم کو دینی شعور کے ساتھ حاصل کرے۔ آپ نے اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کیا کہ سائنس اگر روحانیت کے بغیر ہو تو وہ اندھی ہے، اور دین اگر شعور اور عقل کے بغیر ہو تو وہ ناقص ہے۔

اعلیٰ حضرت کی سائنسی خدمات اور فکری نظریات ایک مکمل اور ہم آہنگ امت کے خواب کی تعبیر ہیں۔ آپ نے یہ ثابت کیا کہ علمِ دین اور علمِ سائنس ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ معاون اور تکمیل کرنے والے ہیں، کیونکہ قرآن نے جو حقائق صدیوں پہلے بیان کر دیے، آج سائنس تجربے کے ذریعے ان کی تصدیق کر رہی ہے۔

اعلیٰ حضرت کی علمی گہرائی، دینی بصیرت اور سائنسی فہم ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جدید دور میں مسلمان، علم، عقل اور ایمان کے سنگم پر کھڑا ہو کر ایک متوازن، روشن اور صالح معاشرہ قائم کر سکتا ہے۔ آپ کی شخصیت علم و حکمت، عشقِ رسول اور سائنسی بصیرت کا حسین امتزاج ہے، جس سے آج بھی رہنمائی حاصل کی جا رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں امام احمد رضا کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔



Source link

Exit mobile version