یہ عنوان اتنا قدیم اور معروف ہے کہ اس پر کئی جید علماء اور اسلامی اسکالرز نے قلم اٹھایا اور ضخیم مجلدات منظرِ عام پر آئیں۔ برصغیر ہند و پاک کی کئی جامعات میں اس موضوع پر تحقیقی مقالات بھی تحریر کیے گئے ہیں۔ آج اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بعض متعصب قلم کار اور نام نہاد مصنفین یہ افواہ اور جھوٹ پھیلاتے ہیں کہ امام احمد رضا خان بڑے فقیہ اور مفتی ضرور تھے لیکن انہیں علمِ حدیث پر کامل دسترس نہ تھی اور وہ اس میدان میں قلیل البضاعت تھے۔
اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر سب سے پہلے اس افواہ کو علمی حلقے میں پھیلانے والے مؤرخ مولوی عبد الحی لکھنوی کا ذکر ضروری ہے۔ وہ اپنی کتاب نزھۃ الخواطر میں لکھتے ہیں:
“حتى برع في العلم وفاق أقرانه في كثير من الفنون لا سيما الفقه والأصول۔ وألف بعض الرسائل أثناء إقامته بالحرمين، وأجاب عن بعض المسائل التي عرضت على علماء الحرمين، وأعجبوا بغزارة علمه وسعة اطلاعه على المتون الفقهية والمسائل الخلافية وسرعة تحريره وذكائه۔ يندر نظيره في عصره في الاطلاع على الفقه الحنفي وجزئياته، يشهد بذلك مجموع فتاواه۔ وكان راسخاً طويل الباع في العلوم الرياضية والهيئة والنجوم والتوقيت، ملماً بالرمل والجفر، مشاركاً في أكثر العلوم، قليل البضاعة في الحديث والتفسير”۔
اس عربی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ امام احمد رضا خان تمام علوم و فنون میں کامل دسترس رکھتے تھے، جن میں بالخصوص علمِ فقہ، علمِ ریاضی، علمِ ہیئت، علمِ نجوم، علمِ توقیت، علمِ رمل اور علمِ جفر شامل ہیں۔ لکھنوی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ آپ کی خداداد صلاحیت اور فطری استعداد پر علمائے حرم بھی حیران رہ گئے، مگر علمِ حدیث اور علمِ تفسیر میں آپ قلیل البضاعت تھے۔
اسی طرح مولوی احمد رضا بجنوری اپنی کتاب انوار الباری کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی بلند پایہ فقیہ تھے لیکن حدیث میں کمزور تھے۔
مجھے ان دونوں مصنفین پر ترس بھی آتا ہے اور ان کی کم علمی پر افسوس بھی، کیونکہ ایک طرف یہ حضرات امام احمد رضا خان کی فقاہت کو تسلیم کرتے ہوئے آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہیں اور دوسری طرف علمِ حدیث میں انہیں کمزور قرار دیتے ہیں۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ ایک چوٹی کا فقیہ ہو مگر حدیث میں ضعیف ہو۔ یہ اجتماعِ ضدین ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے، کیونکہ کوئی بھی عالمِ دین اُس وقت تک کامل فقیہ و مفتی نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسے علمِ حدیث پر عبور حاصل نہ ہو۔ فقیہ وہی ہے جس کو قرآن و سنت کے تمام علوم پر گہری نظر ہو۔
پس یہ بات واضح ہے کہ ان دونوں مصنفین کی یہ آراء حقیقت کے منافی اور تعصب پر مبنی ہیں۔ خدا ہمیں ایسے مذہبی تعصب سے محفوظ رکھے جس میں انسان سورج کی روشنی کو بھی جھٹلا دے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ امام احمد رضا خان بریلوی کا علمِ حدیث میں مقام کیا تھا۔ آپ کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ امام نے اپنے علم، تقویٰ اور عشقِ مصطفی ﷺ کی بنیاد پر اسلام اور اہلِ سنت کی ایسی بے مثال خدمت انجام دی جس کی نظیر ماضی اور حال میں خال خال ہی ملتی ہے۔ آپ نے سنت و بدعت میں واضح امتیاز قائم کیا اور سنتِ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہو کر بدعت اور اہلِ بدعت کا قلع قمع فرمایا۔ علمِ حدیث میں آپ کی خدمات اتنی عظیم ہیں کہ آپ کو “امیر المؤمنین فی الحدیث” کہنا حق بجا ہے۔
آج کل دو تین حدیثوں کی شرح لکھنے والا خود کو “محدث کبیر” اور “شیخ الحدیث” کے لقب سے نواز دیتا ہے، مگر امام احمد رضا خان کی شان یہ ہے کہ آپ نے تقریباً تمام مشہور و معروف جوامع، سنن، معاجم، اجزاء اور مسانید پر گراں قدر حاشیے تحریر کیے اور انہیں اپنی نفیس تشریحات سے مزین کیا۔ مثال کے طور پر:
حاشیہ صحیح بخاری شریف (عربی)
حاشیہ صحیح مسلم شریف (عربی)
حاشیہ سنن ترمذی (عربی)
حاشیہ سنن نسائی، ابن ماجہ، دارمی (عربی)
حاشیہ مسند امام اعظم، مسند امام احمد بن حنبل
حاشیہ فتح الباری، ارشاد الساری، عمدة القاری
حاشیہ کنز العمال، نیل الاوطار، نصب الرایہ، خصائص کبری، مرقاة المفاتیح، اشعۃ اللمعات
وغیرہ-
یہ سب احادیثِ نبویہ کی امہات الکتب ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دیگر کتب پر بھی آپ نے حاشیہ نویسی فرمائی۔ حقیقت یہ ہے کہ جس قدر وسیع پیمانے پر امام احمد رضا نے یہ علمی کام اکیلے کیا، وہ ایک پوری جماعت بھی نہ کر سکی۔
اسی طرح آپ نے خالص حدیثی رنگ میں بھی کئی مستقل کتابیں اور رسائل تصنیف فرمائے، جیسے:
الفضل الموہبی فی معنی اذا صح الحدیث فھو مذھبی
حاجز البحرین الواقي عن جمع الصلاتين
مدارج طبقات الحدیث
الروض البہیج فی آداب التخریج
النجوم الثواقب فی تخریج أحادیث الكواكب
الافاضات الرضویة فی اصول الحدیث
وغیرہ-
مزید برآں آپ نے مختلف مسائل پر درجنوں رسائل تحریر کیے جن میں احادیث کا وافر ذخیرہ جمع کیا، مثلاً:
تجلی الیقین (77 احادیث)
جزاء اللہ عدوہ… (121 احادیث)
شمائم العنبر (45 احادیث)
الہدایۃ المبارکہ فی خلق الملائکہ (24 احادیث)
لمعۃ الضحی فی اعفاء اللحی (56 احادیث)
الحقوق لطرح العقوق (91 احادیث)
الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیہ (70 احادیث)
اسماع الاربعین فی شفاعۃ سید المحبوبین (40 احادیث)
عطایا القدیر فی حکم التصویر (27 احادیث)
الامن والعلی لناعتی المصطفی (120 احادیث)
مزید یہ کہ علامہ محمد عیسیٰ رضوی قادری نے آپ کے فتاویٰ رضویہ کی تمام احادیث کو چھانٹ کر تین جلدوں پر مشتمل الاحادیث النبویہ من التصانیف الرضویة مرتب کی۔ اسی طرح علامہ محمد حنیف رضوی قادری نے آپ کی تین سو تصانیف سے 3663 احادیث کو آٹھ سال کی محنت سے دس جلدوں میں جمع کیا۔
یہ سب کچھ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ امام احمد رضا خان بریلوی کو علمِ حدیث میں کامل دسترس حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کی علمی میراث سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے اور تعصب زدہ اذہان کو ہدایت نصیب کرے۔ آمین۔