Site icon Islamicus

پیغمبر اسلام ﷺ کی آفاقی رحمت اور انسانیت نوازی

Listen to this article



امام الانبیاء ﷺ کو خداوندِ قدوس نے سراپا رحمت بناکر بھیجا جیسے کہ قرآن گویاں ہے۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (سورۃ الانبیاء :107) اے رسول محتشمﷺ  ہم نے آپ کو تمام جہانوں کےلیے رحمت بناکر بھیجا۔ قرآن نے جابجا حضور سرور کونین ﷺ کی رحمت کو بیان کیا۔ اب ذرا ہم قرآن کی ان آیات کریمہ کی سیر کرتے ہیں جن میں آپ کی آفاقی رحمت اور انسانیت نوازی کا ذکر جمیل ہے قرآن کہتا ہے۔فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪( آل عمران :159) اے حبیب مکرم ﷺ پس اللہ کی رحمت سے آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے اردگرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔ دوسری جگہ فرماتا ہے لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ( التوبۃ :128) بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت گراں گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر نہایت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔

 ان تمام مذکورہ بالا آیات کریمہ سے یہ بات روز روشن کی عیاں وبیاں ہے کہ حضور ﷺ ساری کائنات ارض وسما کےلئے سراپا رحمت ہیں۔اسی رحمت خداوندی کی خیرات دونوں جہاں میں آج بھی بٹ رہی ہے۔ ماں کی ممتا سے لےکر دنیا کی ہر شفقت ومحبت اسی بے کراں رحمت کی چھینٹیں ہیں۔ اس لیے سرور عالمﷺ کی اس عالم رنگ و بو میں آمد، رحمت و برکت کی برکھا ہے، آپ کے قدوم میمنت لزوم سے زمینِ مردہ میں جان آگئی۔ ظلم و جبر کے سر چشمے خشک ہوگئے۔ عدل و مساوات کے نام سے نا آشنا کان، مہر و محبت کے سُریلے نغموں سے سرشار ہوئے۔ جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کو نشان منزل ہی نہیں، منزل مل گئی۔ ظلم و استبداد کے خونی پنجوں میں سسکتی زندگی کو پھر سے توانائی ملی۔ ظلم و جہالت کے زنجیروں میں جکڑی انسانیت کو رہائی ملی۔ جورو جبر کی زنجیریں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں۔ غلامی کے طوق و سلاسل ریزہ ریزہ ہوگئے۔ بادِ سموم سے زندگی کے مرجھائے چہرے باد صبا کے تازہ جھونکوں سے کھلنے لگے۔ یتیموں، بیوائوں، غلاموں، مظلوموں کے بہتے آنسو تھم گئے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت ابو طالب فرماتے ہیں۔۔۔

وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ

ثِمَالُ الْيَتَامَي عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ

وہ گورے (مکھڑے والے  آقاﷺ ) جن کے چہرے کے توسل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں (البخاری،کتاب : الاستسقاء، باب : سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الإستسقاءَ إذا قَحَطُوا)

اسی شعر کا ترجمہ کرتے ہوئے مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں؛

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی غلاموں کا مولی۔

آقائے دوجہاں ﷺ مٹی سے سونا بنانے والے،اس کی ذات ستودہ صفات دست دولت آفریں، آپ کی عزت سے دنیا کی عزت ووقار بحال ہوگئی۔ غلاموں اور دبے گِروں کو سریر سلطنت پر بٹھایا گیا۔ دھتکارے پھٹکارتے ہوؤں کو، قیصر و کسریٰ کا وارث بنادیا۔ جہالت کے پتلوں کو کائنات کا مُعلّم بنادیا۔ اپنی اولاد پر ترس نہ کھانے والوں کو یتیموں کا والی بنادیا۔ بے ڈھب زندگی بسر کرنے والوں کو بے مثال منظم ہی نہیں منتظم بنادیا۔ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں، جاہلوں، سنگدلوں بھیڑیوں کو، نہ صرف اپنی بلکہ یتیم و بے سہارا بچیوں کا خادم و خیر خواہ بنادیا۔

جہاں جہاں خداوند قدوس کی خدائی ہے وہاں وہاں حضور پرنور  ﷺ کی رحمت بھی کارفرما ہے۔ اسی رحمت اور انسانیت نوازی کا صدقہ کہیے کہ آج پوری دنیا کے نقشے پر اسلام کا پرچم نظر آرہا ہے۔ پوری تاریخ عالم میں  ایسا کوئی قائد یا لیڈر نہیں ملے گا۔ جس نے زندگی بھر انسانیت اور ہمدردی کی تعلیم دی ہو۔ جس نے زندگی بھر پوری کائنات سے محبت کی ہو۔ انسان تو انسان حیوانات اور جمادات بھی آپ کی بارگاہ میں آکر اپنا دکھڑا سناتے تھے۔ اپنا گلہ وفریاد سناتے تھے۔ بطور مثال ہم یہاں ہرنی کا وہ مشہور واقعہ قلمبند کرتے ہیں جس سے امام الانبیاء ﷺ کی رحمت وشفقت آشکارا ہوگی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورنبی اکرم ﷺ ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے ایک ہرنی کو شکار کر کے ایک بانس کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس ہرنی نے عرض کیا : یارسول ﷲ ﷺ! میرے دو چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں نے حال ہی میں جنا ہے۔ پس آپ ﷺ مجھے ان سے اجازت دلوا دیں کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آ جاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے کہا : یارسول ﷲ ﷺ، ہم اس کے مالک ہیں۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر تمہارے پاس واپس آ جائے۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول ﷲ ﷺ ! اس کی واپسی کی ہمیں کون ضمانت دے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں دوں گا ۔ انہوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا پس وہ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ انہوں نے اسے پھر باندھ دیا۔ جب حضورنبی اکرم ﷺ دوبارہ ان لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا : اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے عرض کیا : یارسول ﷲ ﷺ! وہ ہم ہی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم اس ہرنی کو مجھے فروخت کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا : یارسول ﷲ ﷺ ! یہ آپ ہی کی ہے۔ پس انہوں نے اسے کھول کر آزاد کر دیا وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکل کر یہ کہتی  ہوئی جا رہی تھی کہ  : میں گواہی دیتی ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ ﷺ ﷲتعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘(معجم الطبرانی)

اس واقعہ سے تاجدارِ مدینہ ﷺ کی جانوروں کے تئیں رحمت اور شفقت خوب ظاہر اور اظہر من الشمس وابین من الامس ہے۔ جب بے زبان جانور سے اتنی شفقت اور رحمت تو سوچیے انسانوں سے کتنی محبت اور پیار ہوگا۔ آپ کی رحمت کا کرشمہ یہ ہے کہ دشمن بھی آپ کو دیکھنے کے بعد آپ کا شیدائی اور نام لیوا ہوجاتا تھا۔ جو کل تک جانی دشمن اور خون کا پیاسا تھا آپ کے دربار گہربار میں آنے بعد آپ کی رحمت بے کراں دیکھ کر آپ کی زلف کا اسیر ہوجاتا تھا۔ اس دعوی کی دلیل کے طور پر ہم حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا تاثر نقل کرتے ہیں جو قتل کی سپاری لےکر آپ کو قتل کرنے کے لیے آئے تھے پھر آپ کے سچے غلام بن گئے۔تاریخ کی کتابوں میں واقعہ کچھ اس طرح رقم طراز ہے۔ حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر لایا گیا، مسجد نبویﷺ میں ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا، رسول اللہﷺ تشریف لے گئے تو دیکھا کہ خوبصورت چہرہ، لمبا قد، توانا جسم، بھرا ہوا سینہ، اکڑی ہوئی گردن، اٹھی ہوئی نگاہیں، ایک حسین جوان ہے، حکمرانی کے جتنے اوصاف  ہیں، سارے پائے جاتے ہیں، سرکار دو عالمﷺ آگے بڑھے، فرمایا: ثمامہ! کیسے ہو؟ ثمامہ بولے: گرفتار کرکے پوچھتے ہو کیسا ہوں؟ رسول پاکﷺ نے فرمایا: کوئی تکلیف پہنچی ہو؟ کہتے ہیں؟ نہ تمہاری تکلیف کی کوئی پرواہ، نہ تمہاری راحت کا کوئی خدشہ، جو  چاہے کرلو، رسول پاک ﷺ نے فرمایا: بڑا تیز مزاج آدمی ہے، اپنے صحابہ کو دیکھ کر پوچھا: اس کو دُکھ تو نہیں پہنچایا؟ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہﷺ! گرفتار ہی کیا ہے، دُکھ کوئی نہیں پہنچایا، آپ ﷺ نے فرمایا: ثمامہ ذرا میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھو تو صحیح، ثمامہ کہتے ہیں، کیا نظر اٹھا کر دیکھنے کی بات کرتے ہو۔ مجھ کو مارا جائے گا تو میرے خون کا بدلہ لیا جائے گا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پیشانی سلوٹوں سے بھر گئی، تلوار کے میان پر ہاتھ تڑپنے لگا، اشارہ ابرو ہو، اس کی گردن مار دی جائیں ، اس کی گردن محمد ﷺ کے قدموں میں  ہوں، یہ کیا سمجھتا ہے؟ لیکن رحمۃللعالمین ﷺ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے، فرمایا: جتنا غصہ ہے جی چاہے نکال لو، لیکن ہمارا چہرہ تو دیکھ لو، ثمامہ نے جواب دیا: اس نے کہا تمہارا چہرہ کیا دیکھوں۔ فرمایا: کوئی بات نہیں، میری بستی کی طرف تو نگاہ ڈالو، اس نے کہا: میں نے روم ویونان ایران ومصر کی بستیاں دیکھیں، مگر تمہاری بستی دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔  اس بستی کو کیا دیکھوں؟ رحمۃللعالمینﷺ نے فرمایا: کوئی بات نہیں، دوسرے دن آئے، پھر وہی جواب، تیسرے دن پاک پیغمبر ﷺ آئے، فرمایا: ہم تجھ سے کچھ نہیں مانگتے، ذرا دیکھ تو لو، کہتا ہے: نہیں دیکھتا، اب ہمیشہ مسکرانے والے پاک پیغمبرﷺ نے مسکرا کر فرمایا: جاؤ! ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے، چلے جاؤ، ہم نے اسے رہا کر دیا ہے، ہم تجھے کچھ نہیں کہتے، جاؤ اور اپنے صحابہ کرام کو جن کی تلواریں ثمامہ کی گردن کاٹنے کے لیے بے تاب تھیں، ان سے فرمایا: بڑا آدمی ہے عزت کے ساتھ لے جاکر اس کو مدینہ سے رخصت کر دو، انہوں نے چھوڑا، پلٹے ہوئے اس کے دل میں خیال آیا، بڑے حکمران بھی دیکھے، محکوم بھی دیکھے، جرنیل بھی دیکھے، مگر اتنا حوصلہ والا تو کبھی نہ دیکھا، اس کے چہرے کو دیکھوں وہ کیسا ہے؟ بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا”پھر دیکھتا ہے، دیکھ کر سرپٹ بھاگا،ثمامہ کہتے ہیں کہ قدم آگے کی طرف بھاگ رہے تھے تو دل پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا، دو میل بھاگتا چلا گیا اور جتنی رفتار سے گیا تھا، اس سے دُگنی رفتار سے واپس پلٹ آیا، وہ ماہ منیر بدر تمامﷺ ننگی زمین پہ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، صحن مسجد پر آیا نبیﷺ نے نگاہ ڈالی، سامنے ثمامہ کھڑا ہے، فرمایا: ہم نے تو تجھے چھوڑ دیا تھا پھر آگئے؟ کہا، مجھ کو اپنا بناکر چھوڑ دیا، کیا اسیری ہے اور کیا رہائی ہے، چھوڑا تب تھا جب آپﷺ کا چہرہ نہیں دیکھا تھا، اب آپﷺ کا چہرہ دیکھ لیا، اب زندگی بھر کے لیے آپ کا غلام بن گیا ہوں۔ اور یہ تاریخی تاثر پیش کیا اور فرط  محبت میں فرمایا:  “اے محمد  ﷺ!  قسم اللہ کی ! آپ سے زیادہ کسی کا منہ  میرے لیے برا نہ تھا اور اب آپ کے منہ مبارک سے زیادہ کسی کا منہ مجھے محبوب نہیں ہے، قسم اللہ کی ! آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین میرے نزدیک برا نہ تھا اور آپ کا دین اب سب دینوں سے زیادہ مجھے محبوب ہے۔ قسم اللہ کی ! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ مجھے برا نہ معلوم ہوتا تھا، اب آپ کا شہر سب شہروں سے زیادہ مجھے پسند ہے(صحیح مسلم)

آپ نے دیکھا کہ  جان لینے کے لیے آیا ہوا دشمن جب بارگاہ رسالت ﷺ سے جارہا ہے تو کیسا محبت آمیز تأثر پیش کرکے اپنے وطن لوٹ رہا ہے۔ یہ آپ کی رحمت اور انسانیت نوازی کا اعلی اور زندہ جاوید مثال ہے۔ اب ہم اخیر میں غیر مسلموں سے آپ ﷺ کا حسن تعامل اور آپ کی ہمدردی اور انسانیت نوازی کی ایک عمدہ مثال پیش کرکے اپنی بات کو ختم کرتے ہیں۔ یہ وہ اعلی اخلاق ہیں جس کی نظیر پیش کرنے سے پوری انسانی تاریخ قاصر ہے۔ اب ذرا مکمل توجہ کے ساتھ پڑھیے اور سر دھنیے۔ حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ ہم قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو ہم دونوں (حضرت قیس اور سہل بن حنیف)کھڑے ہوگئے۔ عرض کیا گیا کہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے ( جو کافر ہیں ) اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا۔ آپ ﷺ اس کے لیے کھڑے ہوگئے۔ پھر آپ ﷺ سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کیا یہودی کی جان نہیں ہے۔ (صحیح بخاری)

اس سےبڑھ کر انسانیت نوازی کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی۔ ایک غیر مسلم یہودی کے جنازے کا احترام اور اس جان کی قدر انسانیت کی بڑی مثال ہے۔ آج جہاں پیغمبر اسلام ﷺ کو دشمن عناصر دہشت اور  دہشت گردی سے جوڑتے ہیں تو ہم عاشقان رسولﷺ کا دینی ومذہبی فريضہ ہے کہ ہم اس تاریخی میلاد النبی ﷺ کے سنہرے موقع پر نبی کریم ﷺ کی سیرت کے ان روشن پہلوؤں کو خوب اجاگر کریں اور دشمن عناصر کو دندان شکن جواب دیتے ہوئے انہیں صحیح اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی صحیح تصویر دکھائی جائیں تاکہ دشمن اپنی خفیہ تدبیروں اور سازشوں سے باز آ کر اسلام کے سائبان میں داخل ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں امام الانبیاء ﷺ کی سیرت مبارکہ کو اپنی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضور پرنور ﷺ کی رحمت بے کراں کی چھینٹیں عطا فرمائے۔

تیرے صدقے مجھے اک بوند بہت ہے تیری

جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا



Source link

Exit mobile version