اللہ تعالیٰ کے اولیاء وہ برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جو اپنی ذات کو اللہ کی رضا، مخلوق کی خدمت اور علم و عرفان کے فروغ کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں سادگی، عاجزی، اخلاص، تقویٰ اور اللہ پر کامل توکل نمایاں ہوتا ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں، روحانی فیض اور امن و محبت کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ انہی عظیم اولیاء میں کیرالا کی سرزمین پر اُبھرنے والا ایک روشن ستارہ، شیخ سی ایچ باپوٹی مسلیار رحمہ اللہ تھے، جو نہ صرف ایک زاہد و عابد، صوفی و عامل تھے بلکہ علم و عمل کے جامع اور امتِ محمدیہ کے درد سے لبریز دل کے مالک بھی تھے۔ آپ کیرالا میں صوفی طریقت کی ایک مثالی اور مشہور یادگار ہیں۔
ولادت اور حسب و نسب
شیخ باپوٹی مسلیاررحمہ اللہ کی ولادت 1 /اپریل 1950ء بمطابق 13 /جمادى الاولى 1369 ھ میں ریاست کیرالا کے ضلع ملاپورم کے ایک گاؤں “وٹپرمبا” میں ایک علمی ، دینی و روحانی خانوادے میں ہوئی۔ آپ کا تعلق خانوادۂ “چولکلکَتھ” سے تھا، جو علم و فضل، زہد و تقویٰ اور روحانیت میں ممتاز سمجھا جاتا ہے۔ آپ کا نسب خلیفۂ اول، یارِ غارِ رسول ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کا گھرانہ ایک دیندار، صوم و صلاۃ کا پابند گھرانہ تھا ۔ آپ کے والد محترم، سی ایچ کنجین مسلیاررحمہ اللہ بھی اپنے وقت کے جلیل القدر عالم، زاہد و صوفی، صاحب ِ حال اور مرجعِ خلائق بزرگ تھے جن کے دامن سے ہزاروں لوگ فیضیاب ہوتے تھے۔ ان کی زندگی عبادت و ریاضت اور خدمتِ خلق سے عبارت تھی۔
ابتدائی تعلیم و روحانی نشوونما
شیخ باپوٹی مسلیاررحمہ اللہ کا بچپن دینی و روحانى ماحول میں ہی گزرا ، بچپن ہی سے آپ کا دل بھی آپ کے آباء واجدادکی طرح صوفیّت کی طرف مائل تھا اوراسی لیے آپ نے بھی اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنا شروع کیا۔ آپ کی روحانی رغبت اور عرفانی مزاج آپ کے پاکیزہ نسب اور صدیقی نسبت کا مظہر تھی۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کی نگرانی میں حاصل کی۔ اُس دور کے رواج کے مطابق، آپ نے اپنےدینی تعلیم کے ابتدائی مراحل گاؤں کی مساجد و مدارس میں طے کیے، جن میں مخدومیہ مسجد ، پرپور اور وڈکمری مسجد و دیگر مقامات شامل ہیں ۔ بعد ازاں آپ نے مختلف دینی مراکز میں فقہ، حدیث، تصوف، نحو اور دیگر اسلامی علوم میں تخصص حاصل کیا۔ تحصیلِ علم کے زمانے میں آپ اس قدر محنتی اور لگن والے طالب علم تھے کہ کوئی فقہی مسئلہ یا علمی بات وغیرہ مطالعہ کرنے کے وقت کسی ایک سطر کو بھی حل کیے بغیر نہیں چھوڑتے تھے اور نہ ہی بنا تحقیق کے کچھ پڑھتے تھے۔ یہ آپ کی فطرت کے خلاف تھا۔ علمِ نحو میں آپ کی مہارت کا عالم یہ تھا کہ مشہور منظوم کتاب “الفیہ ابن مالک” کو مکمل حفظ کر لیا تھا اور اول سے آخر، آخر سے اول روانی سے پڑھنے کی قدرت رکھتے تھے۔ طلبہ کے ساتھ اس پر علمی مباحثے کرتے اور جوابات دینے والوں کو انعام سے نوازتے۔ آپ کی پسندیدہ کتابوں میں امام غزالی رحمہ اللہ کی “منہاج العابدین” شامل تھی، جسے آپ اپنی روحانی ترقی کا ذریعہ سمجھتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی اس کتاب کو دل کے قریب رکھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
آپ کے نمایاں اساتذہ میں او۔ کے موسی کٹی مسلیار شامل ہیں، جنہوں نے خود اعتراف کیا کہ شیخ باپوٹی مسلیاررحمہ اللہ اپنے ہم عصر طلبہ میں سادگی، محنت، تقویٰ اور ذوقِ علم میں ممتاز تھے۔ آپ کا کتب بینی کا ذوق بے مثال تھا اور ہمیشہ علمی کتابوں سے جڑے رہتے تھے۔
روحانی مقام و کرامات
علم و فضل، زہد و ورع، تقویٰ و طہارت میں آپ ایک بے مثال شخصیت کے حامل تھے۔ اسی لیے آپ تا دمِ حیات عوام و خواص کے لیے مرجعِ کامل بنے رہے۔ آپ جہاں کئی خوبیوں کے مالک تھے وہیں آپ صاحبِ فراست، درویش مزاج اور صاحبِ کشف و کرامت بزرگ بھی تھے۔ آپ کی عبادات میں خلوص و محبتِ الٰہی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے آپ کو زبان میں تاثیر اور ہاتھ میں شفا عطا فرمائی تھی۔ روزانہ سیکڑوں لوگ روحانی و جسمانی علاج کے لیے حاضر ہوتے اور شفا پاتے تھے۔
آپ کی مشہور کرامتوں میں ایک واقعہ یوں مشہور ہے کہ دل کے ایک مریض کو آپ نے کچھ غبارے دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ جب تک وہ پھٹ نہ جائیں، انہیں پھلاتا رہے۔ بعد میں جب مریض نے اسکین کرایا تو وہ مکمل شفایاب ہو چکا تھا۔ ایک اور معروف واقعہ یہ ہے کہ ایک چور نے ایک بوڑھی خاتون کے کان سے سونے کی بالی چوری کرنے کے لیے اس کا کان اپنے منہ سے کاٹا اور فرار ہو گیا۔ جب یہ خبر شیخ باپوٹی مسلیاررحمہ اللہ کو دی گئی تو آپ نے فرمایا: “وہ واپس آئے گا۔” اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا، وہ چور واپس آیا کیونکہ کاٹے گئے کان کا گوشت وہ اپنے منہ سے نکالنے پر قادر نہ تھا۔ یہ آپ کی روحانی طاقت اور زبان کی تاثیر کی ایک روشن مثال ہے۔
سبیل الہدایہ اسلامك کالج
آپ ہمیشہ تعلیم و تعلم سے محبت کرنے والے اور اس کی راہ میں سب کچھ نچھاور کرنے والے تھے ۔ آپ نے 1996 ء میں اپنی ذاتی کوششوں اور مالی وسائل سے قوم و ملت کی تعلیمی و روحانی ترقی کے لیے ریاست کیرالا کے ضلع ملاپورم کے ایک قصبہ وینگرا کے قریب “پرپّور” نامى گاؤں میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے والا علم و فضل کا ایک عالی شان اور عظیم قلعہ بنام “سبیل الہدایہ اسلامک کالج” کی بنیاد رکھی، جو ابتدا میں ایک چھوٹے مدرسے کی صورت میں قائم ہوا۔بعده آپ کی مخلصانہ کوششوں اور دعاؤں کے نتیجے میں یہ ادارہ دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کر رہا ہے ۔ ہر سال یہاں سے چالیس سے زائد طلبہ علومِ اسلامیہ میں عالمیت کی سند حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ یہ ادارہ صرف تعلیم کا مرکز نہیں بلکہ روحانیت، تہذیب، تربیت اور امت کے درد سے آراستہ نوجوانوں کی تیاری کا ایک فعال گہوارہ ہے۔ بلاشبہ یہ ادارہ شیخ باپوٹی مسلیاررحمہ اللہ کی سب سے بڑی زندہ کرامت ہے، جس میں آج بھی ان کے فیوض و برکات محسوس کیے جاتے ہیں۔
سادگی، گوشہ نشینی اور خدمتِ خلق
شیخ باپوٹی مسلیاررحمہ اللہ کی زندگی سادگی اور اخلاص کی عملی تفسیر تھی۔ آپ شہرت سے دور، مجلسوں سے گریزاں، عاجز و متواضع بزرگ تھے۔ ان کی زندگی میں جاہ و حشم کا شائبہ تک نہ تھا۔ بیماری کے ایام میں بھی لوگوں کا روحانی علاج کرتے، حاجت مندوں کی داد رسی کرتےاور خاموشی سے اپنی زندگی مخلوقِ خدا کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھتے۔
وفات پر حسرت آيات
شیخ باپوٹی مسلیاررحمہ اللہ کا وصال 7/ صفر 1440 ھ، بمطابق 17 /اكتوبر 2018 ء کو ہوا اور تب سے ہر سال 5 صفر سے 7 صفر تک آپ کا عرس شریف منایا جاتا ہے۔ 7 صفر کو روحانی و اجتماعی لنگر کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ آپ کا مزارِ مبارک پرپور، وٹپرمبا میں واقع ہے، جو آج بھی مرجعِ خلائق ہے۔ ہر خاص و عام یہاں حاضری دے کر دعائیں مانگتا ہے، حاجات پیش کرتا ہےاور مرادیں پاتا ہے۔
شیخ باپوٹی مسلیاررحمہ اللہ نہ صرف ایک عالم، صوفی، مربی اور مصلح تھے بلکہ وہ اس دور کے ان بندگانِ خاص میں سے تھے جن کے وجود سے دلوں کو تسلی اور روحوں کو غذا ملتی تھی۔ ان کی خدمات، تعلیمات، دعائیں اور روحانی برکات آج بھی جاری و ساری ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے مرقد کو نور سے بھر دے، ان کے فیض کو قیامت تک جاری رکھےاور ہمیں بھی ان کے اخلاص، علم اور خدمت کے نقوشِ روشن پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔