ہجری سال کا آغاز اپنے اندر ایک معنویت رکھتا ہے
ہجری سال کا اختتام اور نئے سال کا آغاز اپنے اندر ایک معنویت رکھتا ہے۔ آج عیسوی کلینڈر نے پوری دنیا پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہے وجہ صاف ہے کہ ایسی قوموں نے طاقت حاصل کر کے دنیا کو اپنے تسلط میں لایا ہے جو ہجری کلینڈر کے بجائے شمسی نظام اوقات کے حامل ہیں۔ ان اقوام نے اقتدار پر ہی غلبہ حاصل نہیں کیا بلکہ پوری انسانی زندگی کو اپنے تابع بنا دیا ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس ان ہی کے اصولوں کے ماتحت ہیں۔ آج انسان اپنی زندگی کے امور شریعت کے احکامات کے بجائے انہیں کے ضابطے کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ کھانا، پینا، اوڑھنا اور بچھونا یہاں تک کہ چلنا پھرنا مغربی ممالک میں تیار میقات کے مطابق ہیں۔ ان کا سارا نظام شمسی کلینڈر کے حساب پر مقرر کیا ہوا ہے اس وجہ سے پوری دنیا پر شمسی کلینڈر کا غلبہ اور اسی کا استعمال ہوتا ہے۔
اس میں کوئی برائی نہیں کہ انسان کونسا کلینڈر استعمال کرتا ہے شمسی یا قمری؟ دونوں ہی الله تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کا حصہ ہیں بلکہ اسلامی عبادات کا ایک بڑا حصہ شمسی کلینڈر کے مطابق ہی ادا کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نمازوں کے اوقات شمسی کلینڈر کے زیر سایہ مقرر ہیں۔ رسول الله ﷺ کے زمانے میں ہجری کلینڈر وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ اس کا حساب ہجرت کے سال سے لگایا گیا۔ ہجری مہینے پہلے سے موجود تھے تاہم ہجری سال اور کلینڈر حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں رائج کیا گیا۔ آج اس کے استعمال اور عدم استعمال سے بظاہر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا تاہم ایک بات واضح ہے کہ اس کو ترک کرنے سے اسلامی نظام عروج کا ایک باب بند ہوگیا ہے۔ ہجری کلینڈر کے زوال سے مسلم نظام حیات کے زوال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کلینڈر فیس بک پر مبارکباد دینے یا ٹوئٹر پر اس کی شہادت دینے سے رائج نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے احیائے نو کے بغیر اس کا چلن ممکن نہیں، عروج صرف حکومت کا نام نہیں بلکہ مجموعی زندگی میں انقلاب عظیم کا نام ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسکولوں میں فرسودہ نظام موجود ہو،معاشرہ ترقی سے غافل ہو،نوجوان طبقہ مفلوج ہو، ذہانت کا فقدان ہو اور عقل پر پردے پڑے ہوں اس طرح کی صورتحال کے میں آپ مسلمانوں کے عروج اور خلافت کا اعلان کریں عملی طور ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ دنیا سے مسلم غلبہ اسی وجہ سے ختم ہوا کہ ان کے اندر جذبے کے سوا کوئی دوسری چیز موجود نہیں تھی۔
مسلمانوں نے پرنٹنگ پریس کو اسلام کے مخالف قرار دیا، علمی اداروں کو ترقی دینے میں رکاوٹیں ڈالیں یہاں تک کہ جدید سائنس کو کفر کی سازش قرار دیا نتیجہ یہ نکلا کہ علوم و فنون سے ان کو رخصت کیا گیا اور قانون قدرت کے مطابق خلافت کی بھاگ ان سے چھین لی گئی، تخت و تاج ان کے ہاتھوں میں دیا گیا جو اس کے مستحق تھے۔ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی قرآن مجید کے بجائے بائیبل کو عام کیا۔ سائنس اور ریاضی کو رائج کیا، روایتی علوم کے بجائے جدید طرز فکر کو عروج بخشا، اب یہ انہی اقوام کے ہاتھوں میں تھا کہ کیا کچھ باقی رہے اور کیا فنا ہو جائے۔ عیسوی کلینڈر زندگی کا حصہ بنادیا گیا، اس کو دیواروں پر لٹکایا گیا اور ہجری کلینڈر کو پس دیوار دفنایا گیا۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
زندہ قومیں اپنے نئے سال کے دن کو جوش و خروش سے مناتی ہیں۔ اس موقعے پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہے۔ پنجابی اپنے نئے سال کے آغاز کو بطور ایک قومی تہوار کے مناتے ہیں انہوں نے اس دن کو بیساکھی کا نام دیا۔ ایرانی نوروز کو پورے احترام سے مناتے ہیں۔ چین کے لوگ نئے سال کے پہلے دن کو اپنی ترقی کی علامت کے طور مناتے ہیں۔ یورپ میں نئے سال کے آغاز پر جشن منایا جاتا ہے، رقص و سرود کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ مصر کے لوگ اس موقعے پر موسیقی اور کھانے پینے کی مجلسوں کا اہتمام کرتے ہیں یہی حال دوسری قوموں کا ہے۔
مسلمان اپنے نئے سال کے آغاز پر غم و الم کی صورت بنے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس رہا ہی کیا کہ خوشی کا اظہار کریں اور خوش بختی کی محفلیں سجائیں۔ ان سے اقتدار ہی نہیں بلکہ ہر میدان میں ان کی بالادستی ختم ہوچکی ہے۔ علم کے سرمایہ سے انہوں نے ہاتھ دھو لئے۔ مالی ترقی کو انہوں نے ترک کیا، سائنس کو انہوں نے یہودیوں کا جھانسہ مان کر اس سے ہاتھ دھو لئے۔ آلات حرب و ضرب کو کفر کا آلہ کار سمجھ کر اپنے سے الگ کر دیا۔ فزیکس کمسٹری کو اپنے دشمنوں کی ملکیت میں دے کر اس سے کنارہ کیا۔ غرض الله تعالیٰ کی ان نعمتوں سے انکار کر کے ان سے خود کو الگ اور دور کر دیا۔ اس صورتحال کے اندر اقتدار ان کی تحویل میں رہے ممکن نہیں اور ہجری کلینڈر دنیا میں رائج رہے دیوانے کے خواب سے زیاد کچھ بھی نہیں۔ اس موقعے پر ہجری سال کا آغاز ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک زمانے میں آپ کی بھی بڑی حیثیت و اہمیت تھی، آپ کا رعب و دبدبہ تھا لیکن آپ نے سب کچھ اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا ایسا کیسے ہوا؟ دنیا جانتی ہے کہ آپ خود اس سے بے خبر ہیں۔ یہ ہجری نیا سال آپ کو یاد دلانے آیا ہے کہ آپ اپنے گزرے ایام کا حساب لگائیں اور آنے والے کل کے لئے منصوبے تیار کریں جب ہی آپ نئے سال کے آغاز پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے مستحق ہیں ورنہ یہ محض نیا اسلامی سال ہوگا مسلمانوں کا نیا سال نہیں ہوگا۔